عسکریت پسندی نے گذشتہ چار دہائیوں سے ملک، معاشرے اور ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے اور آرمی پبلک سکول جیسے واقعات تو ایسے تھے، جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا حتیٰ کہ انڈیا کو بھی رلا دیا تھا۔
ہم بے نظیر بھٹو اور بشیر بلور جیسے توانا رہنماؤں اور کئی جید علما دین کو کھو چکے ہیں۔ پولیس اور فوج جتنی قربانیاں دے چکے ہیں وہ بے حساب ہیں۔
آخری بار جب سوات سابق قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیے گئے تو اس کے بعد ہم نے ملک کو امن کی طرف واپس لوٹتے دیکھا۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی گئیں تب جا کر کہیں پاکستانیوں بالخصوص پختونوں نے سکھ کا سانس لیا۔
لیکن اس کے بعد اگست 2021 میں جب طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کیا تو ہم نے اسے اپنی جیت سمجھا اور دنیا کے سامنے اس کا ڈنڈھورا بھی پیٹا۔
’غلامی کی زنجیریں‘ توڑنے والے بیان سے لے کر کابل میں ڈی جی آئی ایس آئی کی چائے کی پیالی تک وہ واقعات ہیں جن میں ہم نے کھل کر طالبان کی جیت کا جشن منایا۔
باوجود اس کے کہ ہم جیسے کچھ لوگ یہ کہتے رہے کہ طالبان کی فتح کا اثر آئے گا اور اس کے بعد پاکستان خصوصاً پختونخوا اور سابق فاٹا میں عسکریت پسند تنظیمیں مضبوط ہوں گی لیکن ہمیں کہا گیا نہیں اب نہ تو انڈیا افغانستان کے راستے پاکستان میں مداخلت کر سکے گا اور نہ ٹی ٹی پی وہ کر سکے گی جو اس سے پہلے افغانستان سے کرتی آئی ہے۔
ہم نے دنیا کو ایک دفعہ پھر یہ بھی باور کروایا کہ دیکھیں طالبان ہمارے زیر اثر ہیں اور ہماری سنتے بھی ہیں۔ ہم انہیں سنھبال لیں گے۔
ہم انہیں کیا سنبھالتے، انہیں سنبھالنے کی تگ و دو میں ہم خود ایسی ڈگر پر چل پڑے کہ افغان طالبان اس وقت پاکستان کے ایک جارحانہ ہمسائے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس وقت عسکریت پسندی پھر سے سر اٹھا چکی ہے۔
باجوڑ میں سینیٹر ہدایت اللہ خان جیسے فرشتہ صفت انسان اور قبائل کے ایک بڑے سیاسی رہنما کی ریمورٹ کنٹرول بلاسٹ میں ’شہادت‘ چھوٹا واقع نہیں ہے۔ سینیٹر ہدایت کی ایوان بالا میں آخری تقریر اٹھا کر سنیں، جس میں وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ’ہم مر رہے ہیں۔حالات ایک دفعہ بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں عسکریت پسند تنظیمیں پھر سے جڑیں پکڑ رہی ہیں ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں اس لیے ہماری آواز سنیں اور بچائیں۔‘
افسوس کہ وہ خود اسی عسکریت پسندی کا شکار ہو گئے جس کے خدشات پر کئی ماہ تک وہ سینٹ اور میڈیا میں باربار تذکرہ کرتے رہے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب حالات جس نہج پر آن پہنچے ہیں عزم پاکستان کے نام سے نئے آپریشن کی بات کی گئی لیکن پھر اسے ایک حکمت عملی سے تعبیر کیا گیا جس میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر نشانہ بنا کر آپریشنز میں تیزی لائی جائے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینے کے لیے کل جماعتی کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب سیاسی پارہ اوپر کی حدیں چھو رہا ہے تمام سیاسی جماعتوں کو عزم استحکام پر متفق کروانا آسان نہیں ہوگا لیکن وزیراعظم شہباز شریف یہ کام کر سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کا عندیہ دے چکی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ناراض ہیں اور عزم استحکام کی مخالفت کر چکے ہیں لیکن شہباز شریف خود چل کر جائیں تو انہیں قائل کر سکتے ہیں۔ ویسے بھی مولانا فضل الرحمن اس وقت ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جن کے کارکن اور رہنماؤں پر کافی حملے ہو چکے ہیں اور انہیں بھی سنگین خطرہ ہے۔
ایسے میں مولانا کے تحفظات تو ہو سکتے ہیں جنہیں دور کرنا چاہیے اور اگر وہ سیاسی بنیادوں پر عزم استحکام کی مخالفت کریں تو وہ کوئی مدبرانہ فیصلہ نہیں سمجھا جائے گا۔
نوٹ: تہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔