پاکستان کی ریاست کو پہلے ہی اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے جب کہ اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل بھی گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں، لیکن بجائے اس کے کہ ریاست ان مسائل پر توجہ دے وہ ایسے اقدامات کر رہی ہے، جو اندرونی اور بیرونی طور پر ملک کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ کے سربراہ قاضی فائزعیسیٰ کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز بیانات نے پاکستان کے امیج کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بات صرف بیانات تک ہی کی نہیں، اس تنظیم نے ابھی کچھ ہی دن پہلے اسلام آباد کو بالکل مفلوج کر دیا تھا اور ریاست منہ تکتی رہ گئی تھی۔
چیف جسٹس کے خلاف بیانات پر پولیس نے تھوڑی بہت حرکت دکھائی لیکن بحیثیت مجموعی ایسا لگتا ہے کہ یہ تنظیم کسی کی نہیں سنتی۔ کبھی یہ عدلیہ کو دھمکیاں دیتی ہے، کبھی سیاست دانوں کے خلاف فتوے جاری کرتی ہے، کبھی اقلیتوں پر حملہ کرتی ہے اور کبھی ریاست کو علی الاعلان چیلنج کرتی ہے۔
لیکن وہ ریاست جس نے ماضی میں اس پر نوٹ نچھاور کیے وہ اس کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے سے قاصر ہے اور ہر مرتبہ وہ اس کی بلیک میلنگ کا شکار ہو کر پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ اب یہ انتہا پسند تنظیم ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسی بھی ڈکٹیٹ کرانے کی کوشش کرتی ہے لیکن حکومت اور ریاست کے ایوانوں میں کوئی زلزلہ نہیں آتا۔
لیکن دوسری جانب ریاست بلوچستان کے گمبھیر ہوتے مسائل پر ہونے والے پرامن احتجاج کو بے دریغ طاقت کے استعمال سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایسی طاقت کا تھوڑا سا بھی عکس ہمیں انتہا پسند تنظیموں کے خلاف نظر نہیں آتا۔
تعجب اس بات پر ہے کہ جو انسانی حقوق کے کارکنان بلوچستان میں گمشدہ افراد اور دوسرے مسائل کی طرف حکومت کی توجہ دلاتے ہیں، وہ بھی زیر عتاب آ جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ حکومت نے حال ہی میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئر پرسن اسد بٹ صاحب کو حراست میں لیا۔ ایسے اقدامات ریاست کے لیے باعث شرمندگی بنتے ہیں کیونکہ مہذب دنیا میں انسانی حقوق کے لیے لڑنے والے کو ہر جگہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ریاست نے انہیں ڈرانے، دھمکانے کے لیے حراست میں رکھا اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی دوسری تنظیموں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اگر اسد بٹ پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے تو آپ بھی ہماری گرفت سے دور نہیں ہیں۔
اسد بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں یہ بتانے کی بجائے کہ ان کا جرم کیا ہے، پولیس والے ان سے ان کے بچوں کے بارے میں پوچھتے رہے اور ان پر دباؤ ڈالتے رہے کہ وہ یہ بتائیں کہ وہ کہاں ہیں۔ اسد بٹ کا کہنا تھا، ’اس طرح کے سوالات کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ مجھے ڈرایا جائے۔ یہ صاف پیغام ہے کہ اگر میں نے اپنی جدوجہد کا راستہ ترک نہیں کیا، تو میرے بچوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔‘
ریاست کا ایک اور اقدام جس کو انڈیا سمیت کئی پاکستان مخالف عناصر اچھال سکتے ہیں، وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ توقیر گیلانی کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ ہے۔
ڈاکٹر توقیر گیلانی جے کے ایل ایف کے چیئرمین یاسین ملک کے دست راست ہیں اور انہیں کشمیری حلقوں میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ کشمیر میں چلنے والی حالیہ سبسڈی کی تحریک میں پیش پیش تھے اور متنازع علاقے میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس تحریک میں کلیدی کردار ادا کرنے کی بنیاد پر ہی ریاست ان کے خلاف متحرک ہوئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ڈاکٹر توقیر گیلانی سے ایک تقریر کے دوران کچھ ایسے جملے ادا ہوئے جو ادا نہیں ہونا چاہیے تھے لیکن انہوں نے فوراً ہی تحریری طور پر اور ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے معافی مانگ لی تھی اور کہا تھا کہ وہ جملے غلطی سے ان کی زبان سے ادا ہوئے ہیں۔
لیکن اس وضاحت کے باوجود وہ مذہبی عناصر جنہیں ریاست کے قریب سمجھا جاتا ہے، انہوں نے توقیر گیلانی کے خلاف نفرت آمیز مہم شروع کر رکھی ہے، جس سے نہ صرف ان کی سیاسی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں بلکہ ان کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
دنیا بھر میں رہنے والے کشمیری اس مقدمے پہ بہت پریشان ہیں کیونکہ پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر لوگوں کو قتل کرنا بدقسمتی سے ایک رجحان بن چکا ہے۔
حکومت ملک کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لیے بلوچستان کے ناراض لوگوں سمیت ان تمام سیاسی کارکنان سے بات کرے جو ریاست کے آئین کا احترام کرتے ہیں۔
ایسا مقدمہ ایک ایسے سیاسی رہنما کے خلاف بننا جو انڈین اور پاکستانی کشمیر میں مقبول ہو اور جنہیں بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہو، انتہائی افسوس ناک اور خطرناک ہے۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک انڈین جیل میں اپنی جدوجہد کی پاداش میں قید کاٹ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر توقیر گیلانی کو کوئی نقصان ہوتا ہے، تو اس سے نہ صرف کشمیریوں کی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا بلکہ پاکستان اور کشمیریوں میں فاصلے بھی بڑھ جائیں گے جب کہ انڈیا بھی اس صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ عالمی سطح پر وہ مزید شرمندگی سے بچے، تو ملک کے اندرونی مسائل کو حل کرنے کے لیے بلوچستان کے ناراض لوگوں سمیت ان تمام سیاسی کارکنان سے بات کرے جو ریاست کے آئین کا احترام کرتے ہیں اور آٹھویں ترمیم پر من عمل درآمد چاہتے ہیں۔
ریاست ایسے اقدامات سے بھرپور اجتناب کرے جو انسانی حقوق کے خلاف سمجھے جاتے ہیں اور جس کی وجہ سے ملک لیے سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر مشکلات بڑھتی ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور ایسے عناصر کا بھرپور احتساب کیا جائے جو اسد بٹ سمیت دوسرے انسانی حقوق کے کارکنان کو ہراساں کرنے میں ملوث ہیں۔
سپریم کورٹ کا اقلیتوں کے حوالے سے فیصلہ پاکستان کے امیج کو بہتر کر سکتا ہے۔ اس فیصلے کا بھرپور دفاع کیا جائے اور اس فیصلے کی بنیاد پرجو عناصر مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف اور طاقتور ریاستی اداروں کے درمیان بات چیت کی خبریں مثبت ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف، ایم کیو ایم لندن، ناراض بلوچ سیاسی کارکنان اور پشتون تحفظ موومنٹ سمیت تمام سیاسی قوتوں سے بات چیت کی جائے۔
ملک میں سیاسی استحکام قائم کرنے کے لیے ریاست سب کو ایک پلیٹ فارم پہ جمع کرے تاکہ سیاسی استحکام کی بدولت ملک میں معاشی استحکام آئے اور ہم عوام کے مسائل کو حل کرنے کی طرف بڑھیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔