امریکی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کمپنی مائیکروسافٹ نے کہا ہے کہ ایران امریکی ووٹروں پر اثر انداز ہونے کے لیے خبروں کی اشاعت کی خاطر خفیہ طور پر مصنوعی ذہانت سے کام لے رہا ہے۔
پی سی میگ ڈاٹ کام کے مطابق مائیکروسافٹ نے الزام عائد کیا ہے کہ ایران کی ریاستی سرپرستی میں چلنے والا گروپ ایک بار پھر امریکی صدارتی انتخاب میں دخل دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ ایران نے 2020 کی صدارتی دوڑ میں بھی ایسا ہی کیا تھا لیکن اس بار مائیکروسافٹ کو شبہ ہے کہ ایران امریکی ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں جعلی خبروں کی ویب سائٹس بنا رہا ہے اور خبروں کو مستند بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر انحصار کیا جا رہا ہے۔
مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ ’نیو تھنکر‘ نامی ایک ویب سائٹ بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔
ویب سائٹ پر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توہین کی گئی ہے۔ سوانا ٹائم نامی ویب سائٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکی ریاست جارجیا کے بارونق شہر میں روایتی خبروں کا بااعتماد ذریعہ ہے۔
اس ویب سائٹ پر مختلف موضوعات پر توجہ دی گئی ہے جن میں ہم جنس پرستوں اور خواجہ سراؤں کے مسائل اور جنس کی تبدیلی شامل ہیں۔
دونوں ویب سائٹس ابھی تک آن لائن ہیں اور پیشہ ورانہ انداز میں تیار کی گئی دکھائی دیتی ہیں، لیکن دونوں کے رابطے کرنے کے پیج خالی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مزید برآں دونوں جگہ شائع ہونے والی خبروں میں معروف صحافیوں کی بجائے سوانا ٹائم سٹاف یا نیوتھنکر سٹاف کا حوالہ دیا گیا ہے۔
مائیکروسافٹ کو شبہ ہے کہ ان ویب سائٹس کے پیچھے موجود ایرانی گروپ ’سٹورم-2035‘ خبروں کو سوشل میڈیا پر پھیلانے کی کوشش کر سکتا ہے۔
کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ویب سائٹس حقیقی امریکی مطبوعات کے مضامین چوری کر کے انہیں دوبارہ لکھنے کے لیے جنریٹیو مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہیں۔
مائیکروسافٹ کی رپورٹ کے مطابق: ’ویب پیج سورس کوڈ اور خبروں میں موجود اشاروں کی جانچ پڑتال سے پتہ چلتا ہے کہ ویب سائٹس ممکنہ طور پر سرچ انجن کے نتائج میں ظاہر ہونے کے لیے مخصوص ٹولز کا استعمال کر رہی ہیں۔
’یہ ٹولز دلچسپ سرخیان بنانے، مطلوبہ الفاظ منتخب کرنے اور کاپی شدہ مواد کو تبدیل کرنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ یہ اصل سے مختلف نظر آئے۔ اس سے ویب سائٹس کو سورس چھپانے میں مدد ملتی اور لوگ زیادہ زیادہ تعداد میں ویب سائٹ پر آتے ہیں۔‘