ڈونلڈ ٹرمپ جو مواخذوں، فوجداری مقدمات اور دو قاتلانہ حملوں کا سامنا کرنے کے بعد دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچنے کی دوڑ میں کامیاب رہے، آج امریکہ کے 47ویں صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تقریب حلف برداری کے لیے پیر کو کیپیٹل ہل پہنچے جہاں ان کی حلف برداری کی تقریب میں سابق صدور اور خواتین اول بھی شرکت کی۔
حلف اٹھاتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ ان کی اہلیہ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ بھی موجود تھیں۔
ان سے قبل امریکہ کے نائب صدر کے طور پر جے ڈی وینس نے حلف اٹھایا۔ ان کے ساتھ بھی ان کی اہلیہ اور بچے موجود تھے۔
حلف اٹھانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور 47ویں صدر اپنے پہلے خطاب کے آغاز میں کہا کہ ’امریکہ کے سنہرے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ آج سے امریکہ کا زوال ختم ہو گیا۔‘
انہوں نے اپنے پہلے خطاب کے آغاز میں کہا کہ ’مجھے خدا نے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے لیے بچایا۔‘
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ’لاکھوں کروڑوں کریمینل ایلینز کو ملک بدر کریں گے۔‘ جبکہ انہوں نے اپنے خطاب میں دوسرے ممالک پر ’ٹیرف اور ٹیکس‘ لگانے کا عہد بھی کیا۔
امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ غیر قانونی امیگریشن کو قومی ایمرجنسی قرار دینے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر فوج بھیجیں گے اور امیگریشن کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر ’میکسیکو میں رہیں‘ کی اپنی پالیسی کو بحال کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام غیر قانونی داخلوں کو روکنے اور غیر قانونی طور پر سرحد پار کرتے ہوئے پکڑے گئے تمام تارکین وطن کو حراست میں لینے کی کوشش کریں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں امریکی خلا بازوں کو مریخ پر بھیجنے کا بھی کہا۔ ’امریکہ اپنا پرچم مریخ پر لہرائے گا۔‘
اس سے قبل صدر جو بائیڈن کے ہمراہ کیپیٹل ہل میں داخل ہوتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: ’صبح بخیر۔‘ جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو بائیڈن نے جواب دیا، ’بہت اچھا‘۔
عالمی رہنماؤں کی جانب سے مبارک باد کے پیغامات
ڈونلڈ ٹرمپ کے بطور 47ویں امریکی صدر حلف اٹھاتے ہی عالمی رہنماؤں کی جانب سے ان کے لیے مبارک باد کے پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی مبارک باد کا پیغام جاری کرتے ہوئے کہا: ’میری طرف سےڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کے 47ویں صدر کی حیثیت سے عہدہ سنبھالنے پر دلی مبارک باد۔‘
’میں پاکستان اور امریکہ کے پائیدار تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔‘
شہباز شریف نے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید لکھا: ’گذشتہ برسوں کے دوران ہمارے دونوں عظیم ممالک نے خطے اور اس سے باہر اپنے عوام کے لیے امن اور خوش حالی کے لیے مل کر کام کیا ہے اور ہم مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے۔ میں صدر ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔‘
مبارک باد دینے والوں میں برطانیہ کے شاہ چارلس سوم بھی شامل ہیں جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے پر مبارک باد کا ذاتی پیغام بھیجا ہے۔
ان کے علاوہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی کہا کہ ’مبارک ہو میرے پیارے دوست صدرڈونلڈ ٹرمپ۔‘
نریندر مودی نے ایکس پر لکھا: ’امریکہ کے 47 ویں صدر کی حیثیت سے آپ کی تاریخی حلف برداری کے موقع پر! میں ایک بار پھر دونوں ممالک کو فائدہ پہنچانے اور دنیا کے بہتر مستقبل کی تشکیل کے لیے مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔ آگے ایک کامیاب دور کے لیے نیک خواہشات۔‘
وہ اس وقت عہدہ سنبھال رہے ہیں جب رپبلکنز واشنگٹن پر مکمل کنٹرول حاصل کر رہے ہیں اور انہوں ملکی اداروں کی تشکیل نو کا عزم رکھا ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ حلف برداری کے بعد ٹرمپ بطور صدر فوری طور پر اقدامات اٹھائیں گے کیونکہ ان کے دستخط کے لیے پہلے ہی انتظامی احکامات تیار ہیں جن کا مقصد غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کے عمل کو تیز کرنا، معدنی ایندھن کا فروغ اور سرکاری ملازمین کو حاصل تحفظات کو کم کرنا ہے۔
ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی حکومت ’امریکی طاقت اور خوش حالی، وقار اور فخر کا ایک بالکل نیا دور‘ لے کر آئے گی۔
شدید سرد موسم نے حلف برداری کی تقریب کا انداز بدل دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب کو کانگریس کی عمارت کے ہال میں منتقل کر دیا گیا ہے ایسا 40 سال میں پہلی مرتبہ ہوا، جب کہ افتتاحی پریڈ کو شہر کے مرکز میں واقع ایرینا میں ہونے والے پروگرام سے بدل دیا گیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا ہجوم، جو نیشنل مال سے کیپٹل کے ویسٹ فرنٹ پر افتتاحی تقریب دیکھنے کے لیے شہر پہنچا تھا، اب کہیں اور سے تقریبات دیکھنے کے لیے جگہ تلاش کرنے پر مجبور ہو گا۔
ٹرمپ دوپہر کو عہدۂ صدارت کا حلف اٹھا کر امریکی تاریخ میں اپنی غیرروایتی سیاسی واپسی کو حقیقت بنائیں گے۔
چار سال قبل انہیں جان لیوا کووڈ 19 وبا کی وجہ سے آنے والی معاشی تباہی کے دوران صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد وائٹ ہاؤس چھوڑنا پڑا۔
ٹرمپ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کی۔
انہوں نے اپنے حامیوں کو کانگریس کی عمارت کی طرف مارچ کرنے کی ہدایت کی جب قانون ساز انتخابی نتائج کی تصدیق کر رہے تھے، جس سے ایک ہنگامہ برپا ہوا اور ملک کی پُرامن انتقال اقتدار کی روایت ٹوٹ گئی۔