ہمارے نظام شمسی میں ایک پراسرار نویں سیارے کی موجودگی کے بارے میں سوالات تقریباً ایک دہائی سے زیر بحث ہیں۔
پلوٹو کو 2006 میں نویں سیارے کی حیثیت سے خارج کر دیا گیا تھا لیکن اب بین الاقوامی محققین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ شاید انہوں نے ایک ممکنہ امیدوار تلاش کر لیا ہے۔
اگرچہ فی الحال کچھ بھی حتمی نہیں۔ تائیوان کی نیشنل سنگھہوا یونیورسٹی میں فلکیات کے گریجویٹ طالب علم ٹیری لونگ فین نے اس ہفتے جریدے سائنس سے گفتگو میں کہا کہ ’مجھے بہت خوشی محسوس ہوئی۔ اس نے ہمیں بے حد متحرک کر دیا ہے۔‘
فین اس تحقیق کے مرکزی مصنف ہیں، جسے آسٹریلیا کی ’پبلیکیشنز آف دی ایسٹرونومیکل سوسائٹی‘ نامی جریدے میں شائع کرنے کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔
یہ تحقیق ابتدائی طور پر اشاعت سے قبل استعمال ہونے والے آن لان پلیٹ فارم ’آرکائیو‘ پر پوسٹ کی گئی۔
محققین نے آسمان کا مشاہدہ کرنے کے لیے دو مختلف انفراریڈ خلائی دور بینوں سے حاصل کردہ ڈیٹا استعمال کیا، جنہیں بالترتیب 1983 اور 2006 میں خلا میں بھیجا گیا تھا۔
ان کا نظریہ ہے کہ اگر کوئی ممکنہ سیارہ واقعی موجود ہے تو اس کے طویل مدار کی وجہ سے وہ آسمان پر حرکت کرتا ہوا دکھائی دے سکتا ہے۔
محققین کو نقطوں کے ایسے 13 جوڑے ملے جو اس حرکت کرنے والے سیارے کی موجودگی کی وضاحت کر سکتے ہیں جو نویں سیارے جیسا لگا۔
ان میں سے ایک جوڑے میں رنگ اور چمک بھی آپس میں میل کھا رہے تھے۔ تاہم اس اعلان کو کچھ حلقوں میں شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیل ٹیک) کے فلکیات دان مائیک براؤن نے، جو 2016 میں پیش کی گئی ’نویں سیارے‘ کے مفروضے پر تحقیق کا حصہ ہیں، اس اشاعت سے گفتگو میں کہا کہ وہ فین اور ان کی ٹیم کی جانب سے پرانے انفراریڈ سیٹلائٹ ڈیٹا میں نشان زد کیے گئے نقطوں کو نویں سیارے کی موجودگی کا ثبوت نہیں مانتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے حساب سے اگر ایسا کوئی سیارہ موجود ہو، تو اس کا جھکاؤ نظام شمسی کے عمومی مدار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگا اور وہ معلوم سیاروں کی مخالف سمت میں گردش کرے گا۔
براؤن نے جریدہ ’سائنس‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فرق کا ’یہ مطلب نہیں کہ وہ (سیارہ) موجود نہیں، لیکن یہ ضرور ظاہر کرتا ہے کہ وہ نواں سیارہ نہیں۔‘
’مجھے نہیں لگتا کہ یہ سیارہ نظام شمسی پر وہ اثرات ڈال سکتا ہے جن کے ہم مشاہدے کا دعویٰ کرتے ہیں۔‘
لیکن اگر محققین کی بات ٹھیک ہے تو ان کا دریافت کردہ سیارہ پہلے سے موجود نویں سیارے کے نظریے کو غلط ثابت کر دے گا۔ براؤن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
ان کے مطابق دونوں سیاروں کے مدار ایک دوسرے کو غیر مستحکم کر دیں گے اور وہ بیک وقت موجود نہیں رہ سکتے۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ دلچسپ بات ہے کہ ایک ایسا مقالہ جو نواں سیارہ ہونے کے امیدوار کو تلاش کر لینے کا دعویٰ کرتا ہے، درحقیقت کچھ ایسا تلاش کر رہا ہے جو ہمیں مکمل طور پر غلط ثابت کر دے۔‘
تاہم شکوک کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں کچھ بھی موجود نہیں۔
نویں سیارے کی موجودگی کے حق میں دلیل کا تعلق کائپر بیلٹ سے ہے، جو نیپچون کے مدار سے بہت دور برفیلے ملبے کا ایک علاقہ ہے۔
سیارے کی موجودگی کا یہ مفروضہ وہاں موجود کچھ اجرام فلکی کے عجیب و غریب مداروں کی وضاحت پیش کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نظری طور پر، وہ سیارہ جو نیپچون کے حجم کا ہے اور جسے براؤن اور ان کے ساتھی کانسٹنٹین بٹی گن نے دریافت کیا، سورج سے نیپچون کے مقابلے میں 20 سے 30 گنا زیادہ فاصلے پر گردش کرنی ہو گی۔
اسے سورج کے گرد ایک مکمل چکر مکمل کرنے میں تقریباً 10000 سے 20000 زمینی سال لگیں گے۔
سیاروں کی سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر کانسٹنٹین بٹی گن نے 2016 میں کہا: ’اگرچہ ہم شروع میں اس سیارے کے وجود کے بارے میں خاصے مشکوک تھے، لیکن جیسے جیسے ہم نے اس کے مدار اور بیرونی نظام شمسی پر اس کے ممکنہ اثرات کا مطالعہ جاری رکھا، ہم اس کے وجود کے بارے میں زیادہ سے زیادہ قائل ہوتے گئے۔‘
’150 سال سے زائد عرصے میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہمارے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ نظامِ شمسی کے سیاروں کی تعداد ابھی مکمل نہیں۔‘
پلینٹ نائن کے وجود کے حوالے سے اب تک کوئی مشاہداتی ثبوت سامنے نہیں آیا، حالاں کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ انفراریڈ ڈیٹا میں کسی ممکنہ امیدوار کی نشاندہی کی گئی ہو۔ آخری بار ایسا 2021 میں ہوا۔
کچھ محققین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس ثبوت کو ہم ایک نامعلوم نویں سیارے کے وجود کی طرف اشارہ سمجھ رہے ہیں، وہ درحقیقت اس بات کا عندیہ ہو سکتا ہے کہ ہماری کشش ثقل سے متعلق موجودہ سوچ ہی غلط ہے۔
اس معاملے کی حقیقت پر روشنی صرف وقت ہی ڈال سکتا ہے۔ ماہرین فلکیات اس سیارے کی تلاش کے لیے جلد ہی مزید گہرائی سے مشاہدہ کریں گے، جس میں امریکہ کا نینسی گریس رومن سپیس ٹیلی سکوپ اور چلی کے سیرو پاچون پہاڑ پر واقع ویرا سی روبن آبزرویٹری استعمال کی جائے گی۔
یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے ماہر فلکیات گیری برنٹائن نے جریدہ ’سائنس‘ سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ سوچنا واقعی حیران کن ہے کہ نیپچون جتنا بڑا کوئی سیارہ وہاں کہیں موجود ہو سکتا ہے اور کسی کو کبھی اس کا پتا ہی نہ چلا ہو۔‘
’لیکن اگر آپ اسے کافی دور رکھیں، تو وہ بہت تیزی سے مدھم ہوتا جاتا ہے۔‘
© The Independent