موسیقی روح کی غذا ہے تو پھر موسیقار اتنے بیمار کیوں؟

موسیقی کے فوائد بےشمار لیکن اس کے باوجود کئی فنکار اور پیشہ ور موسیقار خرابی صحت کا شکار کیوں؟

اوپر سے دائیں: ڈیمی لووتا، نکی میناج، سٹارمزی اور میگی روجرز سب نے کھل کر ذہنی صحت کے بارے میں بات کی ہے۔

مصنف مایا اینجلو نے ایک مرتبہ کہا کہ ”موسیقی میری پناہ تھی۔ میں نوٹس کے درمیان خلا میں اپنے آپ کو گھسیٹ لیتا اور اپنی اکیلے پن کی جانب پیٹھ کر لیتا تھا۔”

یہ موسیقی کے ہمارے ذہنوں پر مرتب ہونے والے زوردار اثر کو بہترین انداز میں بیان کرتا ہے۔ اس کے ہمارے دباو میں ذہنوں پر مبثت اثرات کو صدیوں سے پرکھا جا رہا ہے۔

یونانی طبی ماہرین اپنے مریضوں کی شفا کے لیے تاروں اور لکڑی سے بنے موسیقی کے آلات استعمال کرتے رہے ہیں۔ آرسطو کو یقین تھا کہ بانسری جذبات ابھار سکتی ہے اور ”روح کو پاک” کرسکتی ہے۔ اٹلی میں، مشہور کاسٹراٹو گلوکار فرنیلیلی 10 سال تک ہسپانوی کورٹ میں ملازم تھے، جہاں انہوں نے بادشاہ فلپ پنجم کی بیوی ملکہ الیسبیٹا فارنیس کی تجویز پرموسیقی سنائی کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ موسیقار کی آواز میں ان کے ڈپریشن کا علاج کرنے کی طاقت ہوسکتی تھی۔ جب صدر نکسن کو نیند نہیں آتی تھی تو وہ رچمینینوف کا پیانو ”کان پھاڑ دینے” والی آواز میں سنا کرتے تھے۔

21 ویں صدی میں تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مختلف بیماریوں اور موسیقی کی ان پر اثرات کے درمیان تعلق ہے۔ مطالعہ نے ثابت کیا ہے کہ یہ دل دھڑکنے کی شرح کو کم کرنے، فشار خون میں کمی لانے اور تناؤ بڑھانے والے ہارمون میں کمی لاتا ہے۔ 2005 ء میں کینیڈا میں ونڈزر یونیورسٹی کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موسیقی سمجھنے کی صلاحیت بہتر بنا سکتی ہے۔

اور اس کے باوجود کئی فنکاروں اور پیشہ ور موسیقاروں کی صحت خراب ہے۔

یہ بات باآسانی سمجھ آتی ہے کہ اچانک شہرت، اور موسیقی بنانے اور لائیو شوز منعقد کرنے کے گرد گھومنے والی طرز زندگی منشیات اور شراب کے استعمال کی جانب لے جاتی ہے جس کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیڈی گاگا نے اخبار دی مرر کو 2016 میں بتایا کہ انہوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والی یادیں بھلا دی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”یہ ایسے ہے جیسے میں صدمے میں ہوں۔ مجھے اپنی روح کی دوبارہ تازگی کے لیے وقت درکار تھا۔”

زین ملک جو راتوں رات کرے ارض پر ون ڈائریکشن کے 2010 ایکس فیکٹر سیریزمیں دوسرے نمبر پر آنے کے بعد سے سب سے زیادہ زیربحث افراد میں شامل ہوگئے۔ ان کی بےچینی اتنی زیادہ تھی کہ انہیں کئی اکیلے دورے منسوخ کرنے پڑے۔ اپنی کتاب زین میں دو برس قبل انہوں نے کئی مسائل پر بات کی جو شہرت کی وجہ سے پیدا ہوئے یا ان میں اضافہ ہوا۔

انہوں نے کہا: ”جب میں ون ڈائریکشن میں تھا، میری بےچینی کے مسائل بہت زیادہ تھے لیکن بینڈ کے اندر رہتے ہوئے ان سے نمٹا جاسکتا تھا۔ اکیلا ہونے کے بعد میں بہت زیادہ مشکل میں آگیا، اور پرفارمنس کا ذہنی دباؤ، کم از کم اس وقت مجھے سے نمٹا نہیں جانے لگا۔”

اس صعنت میں داخل ہونے کے عمل اتنا زیادہ تناؤ رکھتا ہے کہ اس کی فنکار کی صحت پر بہت زیادہ اثرات ہوسکتے ہیں۔ آج نیکی میناج کا شمار بہترین ریپرز میں ہوتا ہے لیکن 2011 میں انہوں نے کاسموپولیٹن میگزین کو بتایا کہ کیسے انہیں بار بار کی ناکامیوں کے بعد خودکشی کے خیالات نے گھیر لیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ”میرے منہ پر دروازے پٹخ دیئے جاتے تھے۔ مجھے لگا کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔ میں گھر چھوڑ آئی تھی اور مجھے خیال آتے تھے کہ مجھے واپس گھر شاید جانا پڑ جائے۔ اس وقت بس ایک بند گلی کے بعد دوسری سامنے آ رہی تھی۔ ایک موقع پر مجھے محسوس ہوا کہ کیا ہوگا اگر وہ کسی صبح اٹھ نہیں پاتیں۔ ایسا ہی لگتا تھا۔”

ان کے تجربات عام ہیں۔ ہسپتالوں اور نوجوانوں کی برادریوں میں ذہنی دباو، پی ٹی ایس ڈی، اور دیگر ذہنی امراض کا موسیقی کے ذریعے علاج کرنے والے خیراتی ادارے کی چینجز کے سی ای او پیٹر لی کہتے ہیں ”اس صعنت میں مقابلہ انتہائی بےرحم ہے اور چند لوگ ہی اسے کامیاب پیشہ بناسکتے ہیں۔”

”موسیقی کی صعنت میں ان مسائل کی وجوہات میں مسترد کیے جانے یا ناکامی کی صورت میں اعتماد میں کمی، دباو اور برے مشورے کی بنیاد پر غلط فیصلے اور استحصال شامل ہیں۔ یہ حقیقت کے کسی گلوکار کی موت کے فورا بعد ریکارڈ کی فروخت میں بےپناہ اضافہ میڈیا اور مارکیٹ کی بےرحم طاقت کا مظہر ہے۔”

2014 میں سرکردہ آذاد برطانیوی خیراتی ادارے ہیلپ میوزیشنز کے تفیصلی سروے نے موسیقی کی صعنت میں ذہنی صحت کے مسائل سے کیسے نمٹا جاتا ہے سنجیدہ بحث چھیڑ دی۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ 60 فیصد موسیقار ذہنی صحت کے مسائل سے گزرے، جبکہ پورے برطانیہ میں اس کا تناسب 25 فیصد تھا۔ اسی جائزے میں 68 فیصد نے کہا کہ وہ تنہائی یا خاندان یا دوستوں سے علیحدگی سے نمٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 75 فیصد موسیقاروں نے کہا کہ وہ پرفارمنس کی بےچینی سے گزرے ہیں۔

شائقین کو حیرانی کو ہوگی کہ یہ موسیقار لائیو شو سے قبل کس دباو کی بات کر رہے ہیں۔ لگتا تو یہ ہے کہ انہیں مزا آ رہا ہے۔ تو مسئلہ کہاں ہے؟  سائینسی شواہد تاہم بتاتے ہیں ”سامنا کرو یا بھاگ جاؤ” ردعمل قدرتی طور پر دباو کی کیفیت جیسے کہ شو کے وقت آتا ہے جب گائیک سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کی نظروں کے نشانے پر ہوتا ہے۔ کئی کے لیے یہ اچھی پرفارمنس ایڈرلین رش کی وجہ سے بنتا ہے۔ دوسروں کے لیے یہ اضطرابی کیفیت کے حملے یا پھر یاداشت کھونےکا سبببن جاتا ہے جو لائیو شوز سے طویل مدت کے لیے جڑ جاتا ہے۔

رائل کالج آف میوزک کے پرفارمنس سائینسکے پروفیسر ارون ولیمون نے 2015 میں دی گارڈین کو بتایا کہ ”اس کا عمر یا تجربے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ کوئی شخص چاہے کتنا بھی تجربہ کار ہو جسم کا پہلے سے پروگرام کیا ہوا دباو سے نمٹنے کا مطلب ہے کہ وہ مختلف جسمانی کیفیتوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات انتہائی مختلف نفسیاتی حالت میں۔”

پچھلے چند ہفتوں میں موسیقاروں نے اپنی ذہنی صحت کے بارے میں کئی کہانیاں عام کی ہیں۔ ان میں بین گریگری بھی شامل ہیں۔ گریگری کا ایک ٹویٹر بیان میں کہنا تھا کہ وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں اور شکرگزار ہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کر پائے ہیں۔ انہوں نے اپنے بینڈ کے ساتھیوں کا اس بارے میں شکریہ ادا کیا کہ اس مشکل کی گھڑی میں انہوں نے ان کی مدد کی۔ ”میں بہت زیادہ خوش ہوں، میں شراب نہیں پی رہا، ورزش کر رہا ہوں، مجھے صحت مند ہونا محسوس ہو رہا ہے اور میں اپنے مستقبل کے بارے میں مثبت ہوں۔”

ڈیمی لووتا پچھلے سال منشیات کے مشتبہ زیادہ استعمال کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئیں اور اس وقت سے وہ اپنے شائقین کو اپنی صحت کے بارے میں آگاہ رکھ رہی ہیں۔ لووتا پہلے بھی جوکہ بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہیں نفسیاتی صحت کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے سیشن کرتی رہی ہیں۔

لی کا کہنا ہے کہ لووتا اور ایرز اینڈ ایرز کے مرکزی کردار اولی علیگزینڈر پاپ سٹار ایک نئی پود ہے جو کہ سامنے آ رہی ہے جنہیں ذہنی صحت کے بارے میں کھل کر بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اصل بھونچال کسی فنکار کی موت جیسے کہ پرنس، جارج مائیکل کے بعد آتا ہے۔

 چارلی ایکس سی ایکس ان بے شمار ہائی پروفائل فنکاروں میں سے ایک ہیں جو اپنی بے قراری کے بارے میں کھل کر بات کرتی ہیں۔ 2014 میں دی گارڈین کے ساتھ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کیسے بےچینی کا شکار ہوجاتی تھیں جب وہ کسی نئے فنکار کے ساتھ پہلی مرتبہ کام کرتی تھیں۔ اس ماہ کے اوائل میں اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے ٹویٹ کیا: ”ایف بے چینی، ایف بے چینی” ایف بے چینی لکھا۔”

انہوں نے سے قدرے مہذب جملہ یہ لکھا کہ ”بےچینی مجھے اس وقت ہمیشہ جھٹکا دیتی ہے جب میں اس کی انتہائی کم توقع کر رہی ہوتی ہوں۔ یہ اتنا زور دار دھماکہ ہوتا ہے کہ یہ میری دنیا اوپر نیچے کر دیتی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اسی قسم کی صورتحال باقی لوگوں کے ساتھ بھی ہے۔ میرے خیال میں اس کے بارے میں بات کرنا اچھا ہے، اسے معمول پر لانا اور خلوص نیت ہونا۔”

اس معاملے پر عوامی سطح پر بات کرنے والوں کے علاوہ کیی ایسے بھی ہیں جو اس پر بات اپنی موسیقی کے ذریعے کرتے ہیں۔ 2017 میں لوجک نے ایلیسیا کارا اور خالد کے ساتھ مل کر گریمی نامزد پیشکش جاری کی جو سنگین ذہنی دباو اور خودکشی کے خیالات سے متعلق ہے۔

انسداد خودکشی کی قومی ہیلپ لائن کا اس ٹریک کے اجرا کے بعد کہنا تھا کہ ان کی ہیلپ لائن پر کالوں کی تعداد میں 27 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ویب سائٹ پر آنے والوں کی تعداد بھی تینا سے بڑھ کر چار لاکھ تک جا پہنچی۔

میگی راجرز اپنی نئی ایلبم ہرڈ اٹ ان پاسٹ لائف میں اپنے ذاتی مشاہدات پر بات گیت ”بیک ان مائی باڈی” میں کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جب وہ 2017 کے یورپی دورے کے دوران تقریبا پیرس بھاگ گئیں۔ دی انڈیپنڈنٹ کو ایک حالیہ انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ”میں اتنا زیادہ میڈیا کر رہی تھی کہ میں نے اسے مصیبت بنا لیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں پیرس میں ایک ویڈیو شیشن کے درمیان سیگریٹ پینے باہر نکلی تو میں نے سوچا کہ میرے پاس ہوائی جہاز کے ٹکٹ کے پیسے ہیں۔۔۔لوگوں کو اس بات کے احساس ہونے سے قبل کہ میں کہاں چلی گئی ہوں۔”

ایم سی سٹارمزی نے ان کے ایلبم گینگ سائنز اور پریر میں بہادی سے ٹریک ”لے می بیر” شاعری لکھی کہ ”آدمی کسی وقت اتنا غمزدہ ہوتا ہے کہ اپنے فون پر ایر پلین موڈ لگا کر آنسوں والے چہرے کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے بھائی کے لیے دروازہ نہیں کھولنا چاہتا۔”

چینل فور کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس ریپر نے کہا: ”اگر باہر کوئی ایسا ہے جو اس کیفیت سے گزر رہا ہے، تو میرے خیال میں اگر ان کو معلوم ہوجائے کہ میں کیسے حالات سے گزرا تو شاید اس کا انہیں فائدہ ہوگا۔”

2016 میں برطانیہ میں سونی میوزک وہ پہلی کمپنی بنی جس نے ذہنی صحت پر کام کرنے والی تنظیم (مائنڈ) کے ساتھ اشتراک کے ساتھ اپنے عملے کی مدد کا بندوبست کیا جیسے کہ انہیں ذہنی صحت ابتدائی طبی امداد کی تربیت یا دفتر میں یوگا اور مینٹل ہیلتھ اینڈ میوزک پینل بحث کا کمپنی ہیڈکواٹر میں انعقاد شامل ہیں۔

 

میڈیا میں دماغی صحت کی کوریج انتہائی اہم ہے۔ کئی کہتے ہیں کہ وہ ان دنوں کے بہت آگے چلے گئے ہیں جب برٹنی سپیرز کے حجامت کی تصاویر کے پیچھے فوٹوگرافر باگل تھے۔ مگر دراصل ہم کتنے آگے آئے ہیں۔ 2018 میں لووتا کے معاملے کو میڈیا کے بعض عناصر نے بغیر کسی دکھ کے عوامی سطح پر لایا۔  

دی انڈیپنڈنٹ کے ایگزیکٹور ایڈیٹر ول گور جو صحافت میں آنے سے قبل کیی دھائیوں تک نگرانی کا تجربہ رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ جو تاثر ٹیبلائڈ صحافی بناتے ہیں اس کے مطابق ”موسیقار کسی طرح سے سپر انسان ہیں جو سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں۔ اس وقت تک جب وہ ختم ہو جاتے ہیں۔”

لی مانتے ہیں کہ ”خطرہ یہ ہے کہ اس موضوع کی سنگینی کا احساس غائب ہو جاتا ہے ان آسانی سے بتائیب جانے والی کہانیوں میں جیسے کہ ڈپریشن اور دہنی بےچینی۔ لیکن شیزوفرینا اور پرسنیلٹی ڈس آڈر زیادہ مشکل مسائل ہیں۔”

کی چینجز موسیقاروں کے ساتھ مل کر جو ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں ان کی گانے لکھنے، تیاری اور ریکارڈنگ سیشن کے علاوہ لاییو پرفارمنس، مارکٹنگ ترویج اور کاروباری مشوروں کے ذرئعے بحالی کی کوشش کرتے ہیں۔ آرٹسٹوں کی نفسیاتی تھیرپی اور نشے کی لت اور قرضے سے چھٹکارے میں بھی مدد کرتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی