انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی: جسٹس جمال

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ’انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جاسکتا۔ سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا۔ ‘

اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (مونا خان/انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ کی مخصوص نشستوں ملنے پر حکمران اتحاد کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ’انتخابی نشان نہ ہونے سے سیاسی جماعت ختم نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی امیدوار لڑتے ہیں۔ انتخابی نشان عوام کی آگاہی کے لیے ہوتا ہے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ ’انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جاسکتا۔ سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا۔ سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔‘

پیر کو مخصوص نشستوں سے متعلق اپیلوں کی سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 11 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ گذشتہ سماعت پر عدالت نے بینچ پر پی ٹی آئی کا اعتراض مسترد کر دیا تھا جبکہ براہ راست سماعت کی استدعا منظور کر لی تھی۔ پیر کو ہونے والی سماعت کی کارروائی سپریم کورٹ کے ویب لنک سے براہ راست دکھائی گئی۔  

عدالت نے سماعت کا آغاز حکمران اتحاد کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل سے کیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے سماعت کے آغاز میں سوالات اٹھائے کہ ’سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعوی کیا؟ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہو سکتے ہیں، لیکن جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہو سکتے ہیں؟ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتحابات میں حصہ لیا تھا؟‘

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ’سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، عدالت کے سامنے سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 185/3 میں آئے تھے۔ سنی اتحاد کونسل کے مطابق آزاد امیدوار ان کی ساتھ شامل ہوگئے تھے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا، عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹی فیکیشن تھا، یہ معاملہ مخصوص نشتوں کا معاملہ تھا، مخصوص سیٹیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہے۔‘ مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ’مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذات نامزدگی پر غلطی پر معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے حکمران اتحاد کے وکیل سے کہا ’اگر آپ کی دلیل مان لیں تو پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا، اگر اکثریتی ججز یہ سمجھے کہ فیصلہ درست ہے، اگر ایسی صورتحال بنے تو کیا ہو گا؟

مخدوم علی خان نے جواب دیا ’ایسی صورت میں نظر ثانی مسترد ہو جائے گی۔‘ جسٹس شاہد بلال نے ریمارکس دیے کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی، کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جاسکتی ہیں۔‘ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ ’جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا تھا پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی۔‘

،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’اس وقت الیکشن کمیشن کے کردار کو بھی ہم نے دیکھنا تھا۔ میرے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تھی، نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا۔

میرے فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کرکے نشستیں دینے کا کہا گیا تھا، کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے ساری رات جاگ کر دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا، دستیاب ریکارڈ کے مطابق پارٹی سرٹیفکیٹ اور پارٹی وابستگی کے خانے میں 39 لوگوں نے پی ٹی آئی لکھا۔‘

جسٹس امین الدین خان نے اس موقع پر کہا کہ ’یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا۔‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا ’یہ ریکارڈ عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔‘

مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ ’اکثریتی فیصلے میں 39 لوگوں کو تحریک انصاف کا ڈکلیئر کیا گیا، 41 لوگوں کو وقت دیا گیا کہ وہ 15 دن میں کسی سیاسی جماعت کو جوائن کریں، جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے متعلق لکھا کہ آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کیا جاسکتا، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحیی آفریدی نے بھی اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا تھا کہ ٹائم لائن کی قانونی شرائط پوری کرنا لازمی ہے۔‘

مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ ’پی ٹی آئی اس کیس میں فریق نہیں تھی، دوران سماعت متفرق درخواست کے زریعے فریق بنی، پی ٹی آئی نے متفرق درخواست میں کہا تھا کہ وہ صرف عدالت کی معاونت کرنا چاہتے ہیں، اپنے اقلیتی فیصلے میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس عدالت میں درخواست دائر نہیں کی، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ دوران سماعت پی ٹی آئی نے فریق ثالت کے طور پر معاونت کی درخواست دی، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے لکھا کہ پی ٹی آئی نے نشستیں حاصل کرنے کی درخواست دائر نہیں کی۔‘

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا ’مخدوم صاحب سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست نہیں جیتی تھی سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا، تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر کیسے نشستیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟‘

مخدوم علی خان نے جواباً کہا کہ ’یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ وہ نشست نہیں جیتے تھے۔ اکثریتی تفصیلی فیصلے میں لکھا گیا کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کرتے ہوئے نشتیں پی ٹی آئی کو دیتی ہے، اسی وجہ سے جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم افغان نے لکھا کہ تحریک انصاف ہمارے سامنے فریق نہیں۔‘

جسٹس جمال خان  مندوخیل نے ریمارکس دیے ’میرے مطابق الیکشن کے دوران پریزائیڈنگ افسران نے آئین کے تحت اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی، ہمارے سامنے آئی اپیل انتخابات میں غلطیوں کا تسلسل تھی، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ لوگوں کو حق رائے دیہی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا، کوئی ہمارے سامنے ہو یا نہیں پریزائیڈنگ افسران کی غلطی عوام کو کیسے دی جاسکتی ہے، پریزائیڈنگ افسران نے فارم 33 درست طریقے سے نہیں بنائے، آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ  کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے۔‘

حکمران اتحاد کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کر لئے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی دلائل تحریری طور پر جمع کروادئیے، پاکستان پیپلز پارٹی کل اپنے تحریری دلائل جمع کروائے گی۔ عدالت نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔

مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی بینچ کا فیصلہ کیا تھا؟ 

پاکستان کی سپریم کورٹ نے گزشتہ ماہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں مزید کہا کہ ’انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔‘

سپریم  کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت جب کہ پانچ نے اختلاف کیا۔ جن آٹھ ججز نے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دیا ان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی شامل کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ججوں کے تفصیلی اختلافی نوٹ میں کیا کہا گیا؟

سپریم کورٹ کے دو ججوں نے اقلیتی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ثابت شدہ حقیقت ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے بطور سیاسی جماعت عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا، حتی کہ سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے بھی آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا۔ جبکہ پی ٹی آئی موجودہ کیس میں فریق نہیں تھی، اسے ریلیف دینے کے لیے آرٹیکل 175 اور 185 میں تفویض دائرہ اختیار سے باہر جانا ہوگا، پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے لیے آئین کے آرٹیکل 51، آرٹیکل 63 اور آرٹیکل 106 کو معطل کرنا ہو گا۔‘

دونوں ججز نے اپنے اختلافی نوٹ میں مزید لکھا ہے کہ ’کسی عدالتی کارروائی میں یہ اعتراض نہیں اٹھایا گیا کہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی، تحریکِ انصاف الیکشن کمیشن اور نہ ہی ہائی کورٹ میں فریق تھی جبکہ سپریم کورٹ میں فیصلہ جاری ہونے تک بھی پی ٹی آئی فریق نہیں تھی۔‘

مسلم لیگ ن نے کی فیصلے کے خلاف اپیل

مسلم لیگ ن اور حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کے فیصلے کے خلاف  نظر ثانی درخواست میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنےکی استدعا کی۔ 

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں ایسی کوئی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پشاور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے جو درخواست تھی اس میں صرف یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہے کہ نہیں۔ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے حکمنامے سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دونوں جماعتوں کو ایک ہی تصور کر لیا، سپریم کورٹ نے کافی نکات کو سنا لیکن مختصر فیصلے میں کئی اہم نکات پر خاموشی ہے۔‘ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مذکورہ درخواست کو جلد از جلد سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔

مخصوص نشستوں کا معاملہ

قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں۔ جن میں سے آٹھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ آٹھ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224سے کم ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہوئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد تعداد دوبارہ 208 ہو گئی ہے۔ جس کے باعث حکومت تو قائم رہے گی لیکن حکومت اب دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی ہے جو کسی بھی بل کی منظوری میں اہم ہے۔ 

سنی اتحاد کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے۔ جس میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔ 26 خیبر پختون خواہ اسمبلی، 27 پنجاب اسمبلی اور دو سندھ اسمبلی سے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان