طیارے نہ مسافر: گوادر کا نیا ائیرپورٹ ’سفید ہاتھی‘ ثابت ہوا ہے؟

چار لاکھ مسافروں کی گنجائش والا ایئرپورٹ ایک ایسے شہر کے لیے ترجیح نہیں ہو سکتا جہاں کل آبادی ہی صرف 90 ہزار ہو۔

14 اکتوبر 2024 کو چین کے وزیراعظم لی کیانگ (بائیں) اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نئے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کا نیا اور مہنگا ترین ہوائی اڈہ جہاں مسافر نظر آتے ہیں نہ طیارے، ایک معمہ بن گیا ہے۔

نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ مکمل طور پر چین کے مالی تعاون سے بنایا گیا ہے جس پر 24 کروڑ ڈالر لاگت آئی ہے۔

یہ ہوائی اڈہ گوادر کے ساحلی شہر میں واقع ہے اور اکتوبر 2024 میں مکمل ہو  جو اپنے اردگرد کے ’پسماندہ اور بدامنی کے شکار‘ بلوچستان صوبے سے بالکل مختلف منظر پیش کرتا ہے۔

گزشتہ ایک دہائی سے چین نے بلوچستان اور گوادر میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ سرمایہ کاری چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کی گی ہے جو چین کے مغربی سنکیانگ صوبے کو بحیرہ عرب سے جوڑتی ہے۔

حکام نے سی پیک کو ایک انقلابی منصوبہ قرار دیا مگر گوادر میں تبدیلی کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ یہ شہر اب تک قومی بجلی کے نظام سے نہیں جڑا، یہاں بجلی یا تو ایران سے درآمد کی جاتی ہے یا شمسی توانائی سے حاصل ہوتی ہے۔ گوادر میں پینے کے صاف پانی کی بھی کمی ہے۔

چار لاکھ مسافروں کی گنجائش والا ایئرپورٹ ایک ایسے شہر کے لیے ترجیح نہیں ہو سکتا جہاں کل آبادی ہی صرف 90 ہزار ہو۔

بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد نے اس بارے میں کہا: ’یہ ایئرپورٹ پاکستان یا گوادر کے لیے نہیں ہے۔ یہ چین کے لیے ہے، تاکہ ان کے شہری بلوچستان اور گوادر تک محفوظ رسائی حاصل کر سکیں۔‘

سی پیک نے بلوچستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال اور سٹریٹجک اہمیت کے حامل علاقے میں کئی دہائیوں سے جاری علیحدگی پسند تحریک کو مزید ہوا دی۔

علیحدگی پسندوں کا مؤقف ہے کہ ریاست مقامی لوگوں کو نظرانداز کر کے ان کے وسائل کا استحصال کر رہی ہے۔ وہ پاکستانی فوجیوں اور چینی کارکنوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

پاکستان کی بلوچ نسلی اقلیت کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور وہ مواقع سے محروم ہیں، جن سے ملک کے دیگر حصوں کے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری جانب حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

پاکستان نے چینی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے گوادر میں فوجی موجودگی بڑھا دی ہے۔ اب یہ شہر چیک پوسٹوں، خار دار تاروں، فوجیوں، رکاوٹوں اور واچ ٹاورز سے بھرا ہوا ہے۔

چینی کارکنوں اور پاکستانی وی آئی پیز کی محفوظ آمدورفت کے لیے ہفتے میں کئی دن سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔

انٹیلی جینس حکام گوادر آنے والے صحافیوں کی نگرانی کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلی مارکیٹ جیسے عام مقامات کو بھی حساس قرار دے کر رپورٹنگ سے روکا جاتا ہے۔ اس سے بہت سے مقامی لوگ پریشان ہیں۔

گوادر کے 76  سالہ مقامی بزرگ خدا بخش ہاشم کہتے ہیں: ’پہلے ہم جہاں چاہتے جاتے، کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ کہاں جا رہے ہو، کیا کر رہے ہو، نام کیا ہے۔ ہم پہاڑوں یا دیہی علاقوں میں پوری رات پکنک مناتے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں: ’اب ہمیں شناخت ثابت کرنی پڑتی ہے۔ ہم تو یہاں کے رہائشی ہیں، پوچھنے والے پہلے خود بتائیں وہ کون ہیں۔‘

ہاشم کو وہ دن یاد ہیں جب گوادر پاکستان کا نہیں بلکہ عمان کا حصہ تھا اور یہاں سے مسافر جہاز بمبئی جایا کرتے تھے۔

ان کے بقول: ’اس وقت لوگ بھوکے نہیں سوتے تھے، مردوں کو کام مل جاتا تھا، کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا، اور پینے کے پانی کی کوئی کمی نہیں تھی۔ مگر اب گوادر کا پانی خشک ہو چکا ہے، قحط اور بے قابو استعمال کی وجہ سے۔ روزگار بھی ختم ہو گیا ہے۔‘

حکومت کا کہنا ہے کہ سی پیک سے تقریباً دو ہزار مقامی نوکریاں پیدا ہوئیں مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ ’مقامی‘ سے مراد بلوچ لوگ ہیں یا پاکستان کے دیگر حصوں سے آئے افراد۔

گوادر ایک سادہ مگر دلکش جگہ ہے، یہاں کے کھانے لذیذ ہیں، اور لوگ خوش مزاج اور مہمان نواز ہیں۔ یہاں تعطیلات میں خاصا رش ہوتا ہے، خاص طور پر ساحلی علاقوں میں۔

لیکن اس کے باوجود گوادر کو خطرناک یا مشکل مقام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے موجودہ ہوائی اڈے سے صرف ایک ہی کمرشل فلائٹ ہفتے میں تین بار کراچی کے لیے چلتی ہے۔

یہاں سے نہ کوئٹہ (صوبائی دارالحکومت) اور نہ ہی اسلام آباد (ملک کا دارالحکومت) کے لیے کوئی براہ راست پرواز ہے۔ ساحلی ہائی وے خوبصورت ضرور ہے مگر اس پر سہولیات کی شدید کمی ہے۔

بلوچستان میں پچھلے پچاس سالوں سے جاری علیحدگی پسند تحریک کے دوران مبینہ طور پر ہزاروں لوگ لاپتا ہو چکے ہیں۔

مقامی لوگ کہتے ہیں کہ جو کوئی ظلم و استحصال کے خلاف آواز بلند کرتا ہے، اسے اغوا یا تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر حکومت ان الزامات سے انکار کرتی ہے۔

ہاشم چاہتے ہیں کہ سی پیک کامیاب ہو تاکہ مقامی نوجوانوں کو روزگار، امید اور زندگی کا مقصد ملے، مگر ایسا اب تک نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں: ’جب کسی کے پاس کھانے کو ہو، تو وہ غلط راستے پر کیوں جائے گا؟ لوگوں کو ناراض کرنا اچھا عمل نہیں ہے۔‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق بلوچستان میں 2014 کے بعد عسکری کارروائیوں کے نتیجے میں تشدد کم ہوا تھا لیکن 2021 کے بعد حملوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔

کالعدم بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروہوں کو اس وقت نیا حوصلہ ملا جب پاکستانی طالبان نے نومبر 2022 میں حکومت سے جنگ بندی ختم کر کے دوبارہ حملے تیز کر دیے۔

انہیں سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا افتتاح تاخیر کا شکار ہوا۔ خوف تھا کہ ہوائی اڈے کے قریب پہاڑ حملوں کے لیے موزوں جگہ بن سکتے ہیں۔

اس کے بجائے وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے چینی ہم منصب لی کیانگ نے اس کا اسلام آباد سے ورچوئل افتتاح کیا جب کہ افتتاحی پرواز میڈیا اور عوام کے لیے بند رہی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان عوامی پارٹی کے ضلعی صدر عبدالغفور نے اس بارے میں کہا: ’ایئرپورٹ پر گوادر کے کسی بھی رہائشی کو ملازمت نہیں دی گئی، حتیٰ کہ چوکیدار بھی نہیں۔‘

وہ سوال کرتے ہیں کہ ’دوسری نوکریوں کو چھوڑ دیں، یہ بندرگاہ جو سی پیک کے لیے بنائی گئی، اس پر کتنے بلوچ کام کر رہے ہیں؟‘

دسمبر میں عبدالغفور نے گوادر میں بنیادی سہولیات کے لیے روزانہ مظاہرے شروع کیے، جو 47 دن جاری رہے۔ حکام نے بجلی اور پانی کی فراہمی بہتر بنانے جیسے وعدے کیے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوا۔

مگر اب تک ان وعدوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

بین الاقوامی امور کے ماہر عظیم خالد کہتے ہیں کہ جب تک مقامی مزدوروں، اشیا اور سروسز کو شامل نہیں کیا جائے گا، سی پیک سے عام لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔

چینی سرمایہ گوادر آیا تو اس کے ساتھ ساتھ ایک سخت گیر سکیورٹی نظام بھی آیا، جس نے رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور بداعتمادی بڑھا دی۔

عظیم خالد کا کہنا ہے: ’پاکستانی حکومت بلوچوں کو کچھ دینے کو تیار نہیں اور اب بلوچ حکومت سے کچھ لینے کو تیار نہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان