سیاست گندی ہے یہ تو بارہا سنا تھا لیکن سیاست کا چہرہ اتنا مکروہ ہوسکتا ہے، اس کی تازہ تصویر اس وقت واضح ہوگئی جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں عوامی نمائندے کے سخت کلمات پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)، گرفتاری، سنگ باری اور احتجاج کا باعث بنے۔
ضلع ڈودہ میں چند روز سے جاری احتجاجی مظاہروں کے کچھ کچھ مناظر نیپال کی ابتر صورت حال کے مشابہ تھے، مگر انٹرنیٹ اور میڈیا پر سخت سرکاری کنٹرول کے باعث ہماری خبریں محال ہی چناب کی پہاڑیوں کو پھلانگ سکتی ہیں۔
اب تو کرفیو جیسی صورت حال ہے اور انتظامیہ کی جانب سے جلسے جلوسوں پر سخت پابندی لگا دی گئی ہے۔
چند روز قبل ڈوڈہ کے رکن اسمبلی اور اروند کیجریوال کی پارٹی کے جموں و کشمیر کے سربراہ معراج ملک نے میڈیا کے سامنے مقامی انتظامیہ کے خلاف سخت زبان اور کرخت لہجے میں اپنے ووٹروں کی مشکلات کا احاطہ کیا اور مقامی ڈپٹی کمشنر پر الزام لگایا کہ وہ عام لوگوں کے کام کرنے سے کتراتے ہیں، جس کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انتظامیہ نے ان پر پبلک سیفٹی ایکٹ لگا کر انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔
سرکار کا ماننا ہے کہ معراج ملک خطے کے امن و سکون کے لیے خطرہ ہیں۔
رکن اسمبلی کے خلاف انتظامیہ کی اس تادیبی کارروائی پر پہلے معراج ملک کے حلقہ انتخاب جیکاس میں اور پھر آناً فاناً پورے ضلعے میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے۔ پتھراؤ، شیلنگ اور ٹکراؤ کے دوران درجنوں شہری اور پولیس والے زخمی ہوئے اور حالات پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔
گرفتاری کی خبر پھیلتے ہی حکمران جماعت اور اپوزیشن کے نمائندوں نے یک زبان ہوکر انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا، جس میں قومی سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لیڈروں اور نمائندوں نے اسے جمہوریت کے قتل سے تعبیر کیا۔
سوشل میڈیا پر مختلف مکتب فکر سے وابستہ لوگوں نے وزیر داخلہ امیت شاہ کے زیر کنٹرول انتظامیہ پر شدید تنقید کی اور کہا کہ اسمبلی کی وقعت کو پامال کرکے سرکاری افسر کو ڈکٹیٹر بنا دیا گیا ہے۔
ڈودہ کے شہری محمد عبداللہ ٹاک نے عوامی نمائندے کی گرفتاری پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کی انتظامیہ جو سب نارمل ہونے کا ڈھنڈرا پیٹنے میں بظاہر مشغول نظر آرہی ہے، خود اس خطے کو آگ میں جھونکنے کا کام کر رہی ہے، ورنہ ایک جمہوری ملک میں اگر ہمارا نمائندہ ہماری مشکلات کا ازالہ کرنے پر آواز اٹھا رہا ہے تو اسے شاباشی کے بجائے جیل بھیج دیا جانا کہاں کا انصاف ہے؟ جمہوریت کا یہ کیسا چہرہ ہمارے سامنے آ رہا ہے؟ عوام اس پر حیران ہی نہیں بلکہ غیض و غضب کا شکار ہیں۔ کیا اس ملک کو جمہوریت کے لبادے میں اوڑھ کر ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل کردیا گیا ہے؟‘
انتظامیہ کو اس بات پر سخت غصہ ہے کہ عوامی نمائندہ جس طرح کی گندی زبان استعمال کر نے لگا ہے خاص طور پر معراج ملک، وہ عوامی نمائندہ بننے کے لائق ہی نہیں بلکہ انہوں نے اس خطے کے اخلاق و اقدار کو شدید زک پہنچایا ہے۔
ڈوڈہ کے ایک افسر نے کہا کہ معراج ملک کو بات کرنے کی تمیز نہیں، عوامی نمائندہ بننے سے پہلے انہیں تہذیب سیکھنے کا درس لینا چاہیے تھا، نہ جانے اس قدر غیر شائستہ زبان استعمال کرکے وہ عوام کو کیا سکھا رہے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں جب معراج ملک نے انتظامیہ کے افسران کے خلاف سخت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے تقریبا ہر سیاسی جماعت کے سربراہ اور لیڈروں کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کی ہے، جس سے ان کی شبیہہ متاثر ہو گئی اور اکثر سیاست دان ان سے اپنا دامن بچاتے رہے حالانکہ پی ایس اے لگنے کی سبھی نے اب مذمت کی ہے۔
کشمیر کے رکن پارلیمان اور عوامی اتحاد پارٹی کے محبوس رہنما انجینیئر رشید کے بارے میں بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ انہوں نے بھی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے خلاف جو غیر شائستہ زبان استعمال کی تھی، اس کا خمیازہ انہیں مقامی اسمبلی کے انتخابات میں پارٹی کی شکست سے اٹھانا پڑا، جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ اسمبلی انتخابات میں اکثریت سے نشستیں حاصل کرے گی۔
اسمبلی انتخابات سے چند ماہ پہلے انجینیئر رشید نے بھاری ووٹوں سے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے عمر عبداللہ کو ہرایا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گوکہ قومی سیاست میں کئی برسوں سے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان مخالفت میں ایک دوسرے پر غیر شائستہ زبان استعمال کرنے کی روایت پنپنے لگی ہے، جس دوران وزیراعظم مودی کی والدہ اور کانگریس کی رہنما سونیا گاندھی بھی گندے الفاظ کے تیر سہتی رہی ہیں مگر عوام کی نفرت کا مظاہرہ انتخابی عمل میں خوب نظر آنے لگتا ہے، جب غیر شائستہ زبان والے امیدوار عوام کے غیض و غضب کا شکار بھی ہوتے ہیں۔
مگر جو افسر یا انتظامیہ فائلوں میں گھس کر عوام کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں، کام کرنے سے کتراتے ہیں یا پسندیدہ ناپسندیدہ شخصیات کی عرضیوں کو طول دیتے ہیں، انہیں کون سزا دے سکتا ہے یا ان کو کون جواب دہ بنا سکتا ہے، اس کے برعکس جب وہ عوامی نمائندوں پر پی ایس اے لگا کر انہیں خاموش رہنے کا حکم دیتے ہیں، ایسے میں عوام ہی خسارے میں رہتے ہیں اور ووٹ دینے کے باوجود پس رہے ہیں۔
محض ڈودہ کے عوام ہی مشتعل نہیں بلکہ جموں و کشمیر کا پورا خطہ تذبذب میں ہے کہ وہ ووٹ دیں یا نہیں یا اگر دیں تو مسائل کی نشاندہی کی پاداش میں اگر قانون سازوں کو جیل پہنچا دیا گیا تو کیا یہ جمہوریت کی توہین نہیں ہے۔
رکن پارلیمان انجینیئر رشید کو لاکھوں ووٹ ملنے کے باوجود جیل میں رکھا گیا ہے، جس پر عوام میں پہلے ہی ایک لاوا پنپ رہا ہے۔ معراج ملک کی گرفتاری نے اس پر تیل چھڑکنے کا کام کیا ہے۔
جب انتظامیہ بدمست ہوجاتی ہے تو وہاں عوام اور ووٹ کی کوئی وقعت ہوتی ہے اور نہ جمہوریت کا لحاظ، اور جب بات کشمیر کی ہو تو وہاں ہرمسئلے کو ’دہشت گردی‘ کے زمرے میں ڈال کر جواب دہی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔