پاکستان کی گوادر بندرگاہ گذشتہ دو دہائیوں سے چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا مرکزی حصہ ہونے کی بدولت قومی اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یہ بندرگاہ بیجنگ کے کئی ارب ڈالر کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں اپنی حیثیت کی وجہ سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔
موجودہ دور میں گوادر کی اہمیت چینی سیاست کے تناظر میں اور وسطی ایشیا جانے والے نئے، محفوظ اور قابل اعتماد راستے کے طور پر اس کے کردار کو نئی پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستانی رہنماؤں نے پاکستان کی آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہی گوادر کی بندرگاہ کی سٹریٹیجک اہمیت کو پہچان لیا تھا۔
اس وقت یہ بندرگاہی شہر اور ساحل کے ساتھ 15 ہزار 210 کلومیٹر کا علاقہ بحیرہ عرب کے اس پار سلطنت عمان کا حصہ تھے اور 174 سال تک عمان کے زیر انتظام رہے۔
مسقط نے مکمل طور پر انتظامی کنٹرول سنبھال رکھا تھا۔ وہ ٹیکس وصول کرتا، سکیورٹی فراہم کرتا اور خود مختار طاقت کے طور پر کام کرتا تھا۔ گوادر جغرافیائی طور پر جزیرہ تھا، جو پاکستانی سرزمین میں گھرا ہوا تھا اور اس کا عمان کے ساتھ صرف سمندری رابطہ تھا۔
بلوچستان کی نوابی ریاستوں میں سے ایک قلات کے تاریخی دعوؤں کی وجہ سے پاکستان کی اس علاقے پر نظر تھی لیکن 1958 تک اس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا گیا۔
بات آگے بڑھی اور 1792 میں خان آف قلات نے یہ علاقہ جاگیر کے طور پر شہزادہ سلطان بن احمد کو تحفے میں دے دیا۔ سلطان بن احمد عمان سے فرار ہو کر آئے۔ انہوں نے والد کی حکومت کو چیلنج کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں معزول کرنے میں ناکام رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خان آف قلات نے شہزادے پر احسان کرنے سے چند سال پہلے ہی اس ساحلی علاقے کو اپنی تحویل میں لیا تھا۔ اگر عمان نے گوادر پر اپنی اتھارٹی برقرار رکھی ہوتی تو اس علاقے کی جغرافیائی سیاست بہت مختلف ہوتی کیونکہ یہ مسقط کی بندرگاہ سے صرف 208 ناٹیکل میل کی دوری پر ہے۔
یہ علاقہ بحیرہ عرب کے دوسری طرف سلطان کے مقابلے میں پاکستان کی طویل مدتی سٹریٹیجک سوچ میں زیادہ سرایت کر گیا۔ جب پاکستان نے برطانیہ کے توسط سے سلطان کے ساتھ رابطہ کیا تو اس نے دیکھا کہ وہ اس علاقے کو ’فروخت‘ کرنے کے لیے تیار تھے لیکن ایک خاص قیمت لے کر۔ چھ ماہ تک مذاکرات اور 30 لاکھ برطانوی پاؤنڈ کی ادائیگی کے بعد دونوں ممالک نے آٹھ ستمبر 1958 کو ایک معاہدے پر دستخط کر دیے۔
موجودہ دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی رہنماؤں نے دوستانہ اور پرامن انداز میں گوادر کے حصول میں گہری سٹریٹیجک سوچ اور بے پناہ دور اندیشی کا مظاہرہ کیا۔ آج بھی اس خطے کے لوگ عمان کو بہت سراہتے ہیں اور اس سے محبت کرتے ہیں جو سلطنت کی مسلح افواج کے لیے بھی روزگار کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان نے دیگر سٹریٹجک ترجیحات کی بنا پر کئی دہائیوں تک گوادر پورٹ کی ترقی کو پس پشت ڈالے رکھا اور سست رفتاری سے سرمایہ کاری کی۔ یہاں توجہ چین کی ’شاہراہ ریشم کی بحالی‘ میں دلچسپی کی وجہ سے بڑھی۔ معاملہ قدیم تجارتی راستے استعمال کرنے کا نہیں بلکہ منصوبہ کہیں بڑا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ جسے چین کا عظیم سٹریٹیجک وژن قرار دیا جاتا ہے، اس میں سڑکوں، بندرگاہوں، ریلوے لائنوں، توانائی کی پائپ لائنوں کی تعمیر اور مارکیٹوں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا شامل ہے۔
گوادر، چین اور پاکستان کے درمیان ’سمندروں سے گہری اور پہاڑوں سے زیادہ بلند‘ دوستی کی کہیں زیادہ اہم علامت ہے، نہ کہ صرف سنکیانگ کے علاقے سے چینی مصنوعات کی ترسیل کے لیے ایک بندرگاہ کی حیثیت سے۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ بیجنگ کو کسی خفیہ معاہدے کے تحت ایک ’اڈہ‘ دیا جا سکتا ہے جس کی پاکستان نے برسوں سے مسلسل تردید کی ہے لیکن اگر مغرب اور جنوبی ایشیا کے وسیع سٹریٹجک ماحول میں کوئی تبدیلی آئی تو مستقبل میں اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
تاہم گوادر کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ سمندر سے محروم افغانستان، وسطی ایشیائی ریاستوں، اور سب سے بڑھ کر، چین کے دور دراز کے مغربی علاقوں کی سمندر تک رسائی فراہم کرتا ہے، خاص طور پر سی پیک کے تحت بنائے گئے بنیادی ڈھانچے کے ذریعے۔
چین جس طرح سی پیک منصوبوں میں تقریباً 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے لیے مختص چھ سو ارب ڈالر کی رقم کا ایک حصہ ہے جس کے تحت اقتصادی زونز، پاور پلانٹس، ہوائی اڈے، موٹرویز، اور چین و وسطی ایشیا کے ساتھ ریلوے کے ذریعے رابطہ قائم کرنے جیسے منصوبے شامل ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب عظیم حکمت عملی کے بغیر نہیں ہو رہا۔
چین کو 2013 میں گوادر پورٹ کا کنٹرول دے دیا گیا تاکہ وہ اس کا انتظام سنبھالے اور اسے مزید ترقی دے۔ یہ پورٹ گذشتہ پانچ سال سے مکمل طور پر فعال ہے اور 20 ہزار ٹن وزن کی گنجائش والے جہازوں کو لنگر انداز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بندگاہ کو ترقی دے کر70 ہزار ٹن کی گنجائش تک لے جانے کا عمل جاری ہے۔
اس بین الاقوامی رسائی کو بڑھاتے ہوئے چین نے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعمیر کیا ہے، جہاں ہر قسم کے طیارے اتر کر سکتے ہیں۔ چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ نے 13 اکتوبر کو اس کا آن لائن افتتاح کیا اور اسے پاکستان کے لیے ’تحفہ‘ قرار دیا۔
چین اور پاکستان سی پیک میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، حالاں کہ بلوچ علیحدگی پسند گروپوں کی جانب سے چینی شہریوں اور پاکستانی کارکنوں کو نشانہ بنانے کی وجہ سے سکیورٹی خدشات موجود ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سکیورٹی کی قیمت کچھ بھی ہو اس بڑے منصوبے کو آگے بڑھانے سے پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں۔
گوادرکا علاقائی مرکز کے طور پر ابھرنا دو عوامل پر منحصر ہے۔ پہلا یہ کہ چین اور پاکستان اسے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے ساتھ کس طرح جوڑتے ہیں اور دوسری بات کہ خطے وہ ملک جہاں سمندر نہیں وہ اسے سمندر تک رسائی کے لیے چھوٹے، سستے، آسان اور محفوظ راستے کے طور پر کس طرح دیکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مزید انتظار کرنا ہوگا۔
رسول بخش رئیس لاہور کی لمز یونیورسٹی کے شعبہ انسانی علوم اور سوشل سائنسز میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ ان کی تازہ ترین کتاب ’اسلام، نسلی تفریق اور طاقت کی سیاست: پاکستان کی قومی شناخت کی تشکیل‘ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 2017 میں شائع کی۔ X: @RasulRais