وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے چند روز قبل سرکاری شعبے کی تمام تجارتی اشیا کا 50 فیصد کارگو گوادر بندرگاہ کے ذریعے ملک میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کے ممکنہ اثرات کیا ہوں گے۔
وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے پیر کو اسلام آباد میں پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے حوالے سے جائزہ اجلاس کی صدارت کی۔
کے اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’ملکی برآمدات میں اضافے اور تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے چینی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔
’وزیراعظم کو چینی ماہرین کے پاکستان کے دورے پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ چینی کمپنیوں کی چینی صنعتیں پاکستان منتقل کرنے میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔‘
وزیر اعظم کی جانب سے گوادر پورٹ پر سرکاری شعبے کے کارگو کا 50 فیصد حصہ لانے کے فیصلے کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے اس شعبے کے ماہرین سے جواب جاننے کی کوشش کی ہے۔
اس حوالے سے کراچی پورٹ حکام نے کہا ہے کہ یہاں سے ملک بھر میں ترسیل کا بہتر نظام موجود ہے دوسری جانب گوادر پورٹ حکام نے بھی 50 فیصد سرکاری شعبے کے کارگو کی آمد اور ترسیل کا انفراسٹرکچر مکمل ہونے کا دعوی کیا ہے۔
ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی اس اقدام کو گوادر بندر گاہ پر آنے والی اشیا کی ٹرانسپورٹ کے اخراجات کو غیر معمولی سمجھتے ہیں۔
ان کے بقول: ’اس بندرگاہ پر جو اشیا لائی جاتی ہیں انہیں ملک کے دوسرے شہروں تک لے جانے میں کراچی کی نسبت زیادہ اخراجات سے ان کی قیمت بڑھے گی۔‘
کراچی اور گوادر بندرگاہ کی کیپسٹی
پاکستان جغرافیائی لحاظ سے دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں سات بندرگاہیں موجود ہیں۔ سب سے بڑی بندرگاہ کراچی پورٹ دوسری پورٹ قاسم جبکہ گوادر چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والے تیسری بڑی بندرگاہ ہے۔
اس کے علاوہ پسنی بندرگاہ، اوماڑہ پورٹ (جناح نیول بیس)، جیوانی پورٹ، شاہ بندر پورٹ موجود ہیں۔
کراچی کی بندرگاہ جو 1857 میں قائم کی گئی اسے کراچی پورٹ ٹرسٹ بھی کہا جاتا ہے۔
اس بندر گاہ کے ایک عہدیدار کمال صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی بندر گاہ پر پاکستان میں درآمد اور برآمد ہونے والی اشیا کا مکمل ترسیلی نظام موجود ہے۔ ملک کے کسی بھی حصے میں یہاں سے باآسانی ہر طرح کے سامان کی ترسیل ہوتی ہے۔
’یہاں ہر طرح کے جدید نظام سے ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کو اعتماد کے ساتھ کاروباری حضرات کوسہولیات دستیاب ہیں۔
’یہاں کسی قسم کے سامان کی آمد ورفت بڑھنے کے ساتھ ساتھ گنجائش میں اضافہ معمول کے مطابق ہوتا رہتا ہے۔
ان کے مطابق: ’بحری جہازوں کی سمندر میں پارکنگ ہو، سامان کے لیے گودام، سامان کی ترسیل کےلیے کنٹینرز اور ٹرکوں کی پارکنگ، لوڈنگ ان لوڈنگ کی سہولت بھی موجود رہتی ہے۔‘
کراچی پورٹ ٹرسٹ ریکارڈ کے مطابق اس بندر گاہ پر سالانہ چار کروڑ سے پانچ کروڑ 20 لاکھ ٹن تک کارگو آتا ہے۔
گوادر پورٹ کے ایک افسرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ ملک کی بڑی بندرگاہوں میں شامل ضرور ہے لیکن اس کی گہرائی کراچی پورٹ سے کم ہے۔ کیونکہ کراچی پورٹ پر پانی کی گہرائی 16 میٹرجبکہ گوادر بندرگاہ پر سمندر میں پانی کی گہرائی ساڑھے 14 میٹر ہے۔
’اس گہرائی کو 18 میٹر تک کرنے کی حکمت عملی بھی تیار کی گئی ہے۔ یہاں چین کے تعاون سے جدید نظام بنایا گیا ہے کسٹم کاونٹر سے لے کر آن لائن رابطوں کا نظام بھی فعال ہے۔
’اس کے علاوہ سکیورٹی انتظامات اور کاروباری حضرات کے لیے آمدروفت کی سہولت بھی تسلی بخش بنائی گئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’گوادر بندر گاہ کا دوسرے صوبوں اور شہروں سے مین شاہراوں کے ذریعے رابطہ ہوتا ہے۔ یہاں سے ٹرین چلانے کے لیے بھی حکومت کی منصوبہ بندی مکمل ہے جلد ہی اس پر بھی کام شروع ہوجائے گا۔‘
گوادر پورٹ اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز منیر احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے مختصر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گوادر پورٹ گذشتہ کئی سال سے مکمل فعال ہو چکی ہے۔ یہاں ہر طرح کا سامان لانے اور اس کی ملک بھر میں ترسیل کے لیے انفراسٹرکچر موجود ہے۔‘
کارگو گوادر منتقلی سے معیشت پر کیا فرق پڑے گا؟
اس سوال کے جواب میں ماہر معیشت اور سرمایہ کار ڈاکٹر قیصر بنگالی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کراچی میں موجود بندر گاہ ہماری ضروریات کے مطابق کافی ہے۔
’یہ پرانی بندر گاہ ہے اس لیے پورا انڈسٹریل ایریا بھی اسی کے ارد گرد بنا ہوا ہے۔ جس سے بہت سی درآمدی اور برآمد ہونے والی اشیا کی ٹرانسپورٹ لاگت بہت کم پڑتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اسی طرح ملک بھر میں یہاں سے اشیا کی آمد ورفت کا نظام پہلے ہی موجود ہے لہذا کاروباری حضرات کو مشکلات کم پیش آتی ہیں۔‘
قیصر بنگالی نے کہا کہ ’حکومت نے جو 50 فیصد سرکاری شعبے کی گڈز گوادر پورٹ پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے اشیا کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہو گا کیونکہ وہاں سے سامان سندھ، پنجاب یا کے پی کے میں لے جانے کا خرچہ کراچی کی نسبت بہت زیادہ ہو گا۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے باہر سے گندم منگوائی جو سرکاری شعبے کے ذریعے درآمد کی گئی۔
’تین جہازوں پر آنے والی اس گندم کو کراچی لانے کے لیے تین ارب روپے کے اخراجات ہوئے۔ لہذا جو اشیا گوادر آئیں گی ان کے ٹرانسپورٹ اخراجات بھی کئی گنا زیادہ ہوں گے جس کا بوجھ عوام پر یا حکومت پڑے گا۔‘
قیصر بنگالی نے کہا کہ ’گوادر پورٹ چین کے تعاون سے ضرور بنی ہے لیکن ہم نے سکیورٹی سمیت اہم معاملات میں ذمہ داری اٹھائی ہے۔ اس بندر گاہ کو فعال ضرور ہونا چاہیے لیکن اس سے اپنے لیے فوائد کا پہلو ضرور سمجھنا چاہیے۔
’یہ اسی صورت میں فائدہ مند ہوسکتی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے روٹ کو اس میں سب سے پہلے شامل کیا جائے۔ تاکہ یہاں سے سامان کی ترسیل کا قریب ترین ایریا بھی کور ہو اور ہمارے ریونیو میں بھی اضافہ ہو سکے۔
’یہ بندر گاہ چین کے انڈسٹریل شہروں سے بھی بہت فاصلے پر ہے اس لیے وہ اسے دوسری ترجیح کے طور پر ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ حکومت کو گوادر کے ارد گرد انڈسٹریل زون بھی ترجیحی بنیادوں پر بنانا ہوں گے تاکہ آنے والا سامان دور دراز لے جانے کے اخراجات سے بچا جا سکے۔‘