فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے سیلاب سے متاثرہ پنجاب کےعلاقوں قصور، جلال پور پیروالا اور ملتان کے دورے کے دوران فوج کا بھرپور تعاون جاری رکھنے کے عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ ریاست ہر سال قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ملک بھر میں جون کے وسط سے جاری مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں اب تک نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 950 سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں اور ہزار سے زائد زخمی ہیں جبکہ مال مویشی اور املاک کا بھی نقصان ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب انڈیا کی جانب سے اپنے دریاؤں سے چھوڑا گیا پانی پنجاب کے دریاؤں راوی، ستلج اور چناب میں طغیانی اور اردگرد کی آبادیوں کو متاثر کرنے کے بعد اب ہیڈ پنجند کی جانب رواں دواں ہے، جس کے بعد یہ سندھ میں داخل ہو گا۔
این ڈی ایم اے کے مطابق انڈیا میں ڈیموں سے پانی چھوڑے جانے اور شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب نے گذشتہ ماہ سے پنجاب بھر میں چار ہزار سے زیادہ دیہات کو ڈبو دیا۔ 24 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے، 45 لاکھ سے زیادہ کو لوگوں کو متاثر کیا اور لگ بھگ 100 افراد جان سے گئے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے بیان کے مطابق قصور، جلال پور پیروالا اور ملتان میں قائم فلڈ ریلیف کیمپ کے دورے کے دوران فیلڈ مارشل کو زمینی صورت حال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی، جس میں متاثرہ علاقوں میں جاری ریسکیو اور ریلیف آپریشنز کی تفصیلات شامل تھیں۔
سول انتظامیہ سے گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے اچھی طرزِ حکمرانی اور شمولیتی و عوام دوست ترقی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے زور دیا کہ تمام ضروری اقدامات، بشمول انفراسٹرکچر کی ترقی، جو بار بار آنے والے سیلاب سے لوگوں کو بچانے کے لیے درکار ہیں، ان میں تیزی لائی جائے۔
آرمی چیف نے کہا: ’ریاست ہر سال قیمتی جانوں اور املاک کے نقصان کی متحمل نہیں ہو سکتی۔‘
فیلڈ مارشل نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سول اور فوجی اداروں کی مربوط کوششوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستانی فوج عوامی فلاح کے لیے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات میں بھرپور تعاون جاری رکھے گی۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ان سیلاب متاثرین سے بھی ملاقات کی، جنہیں پاکستان فوج اور سول انتظامیہ نے کامیابی کے ساتھ محفوظ مقامات پر منتقل کیا تھا۔ انہوں نے متاثرین کو یقین دلایا کہ ان کی دوبارہ آبادکاری اور بحالی کے عمل میں مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔
پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے ہیڈ پنجند کو کوئی خطرہ نہیں: پی ڈی ایم اے
حکام کے مطابق سیلابی پانی جو رواں ہفتے مشرقی پنجاب کے شہر جلال پور پیر والا کے لیے خطرہ بنا رہا، جمعے کو اترنا شروع ہو گیا، جس سے اس کے سات لاکھ رہائشی محفوظ ہو گئے لیکن پانی کی سطح میں اضافے نے دو قریبی شہروں کے نواحی دیہات کو ڈبو دیا جس کے بعد پریشان حال شہری علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
اب یہ پانی ہیڈ پنجند کی طرف رواں دواں ہے، جس کے حوالے سے پنجاب ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ ہیڈ پنجند کو پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں۔
پی ڈی ایم اے کے ترجمان چوہدری مظہر نے نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو ارشد چوہدری کو بتایا: ’اگرچہ 1973 میں پنجند سے سب سے بڑا آٹھ لاکھ کیوسک کا ریلا گزر چکا ہے۔ لیکن ہیڈ قادر آباد سے گزرنے والے آٹھ سے نو لاکھ کیوسک کے ریلے ہیڈ محمد والا اور شیر شاہ تک پانچ چھ لاکھ کیوسک تک رہ گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’علی پور اور جلال پور میں شگاف ڈالنے سے پانی کی سطح اب ساڑھے چھ سے کم ہو کر ساڑھے پانچ لاکھ رہ گئی ہے، لہذا علی پور اور جلال پور پیروالا میں سیلاب کی صورت حال برقرار ہے، لیکن ہیڈ پنجند سے زیادہ سے زیادہ پانی کی سطح چھ لاکھ کیوسک سے کم رہے گی۔‘
پی ڈی ایم اے ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ دریائے چناب، راوی اور ستلج میں گذشتہ روز سے پانی کی سطح میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
دوسری جانب این ڈی ایم اے کے ترجمان مظہر حسین نے امید ظاہر کی ہے کہ ’اگلے 48 گھنٹے میں دریائے چناب اور ستلج کا پانی مزید کم ہو جائے گا، جس سے بے گھر لوگوں کو واپس جانے کا موقع ملے گا۔‘
حکومت پنجاب متحرک
اس سے قبل جمعے کو امدادی کارکن شجاع آباد اور لیاقت پور سے لوگوں کو نکالنے میں مصروف رہے جہاں آس پاس کے دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں۔
جلال پور پیروالہ میں ریلیف کیمپوں اور کھلے آسمان تلے رہنے والے بے گھر افراد کی مشکلات میں کمی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے وزرا کو، جن میں ان کی کابینہ کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب بھی شامل تھیں، امدادی اور ریسکیو کارروائیوں کی نگرانی کے لیے بھیجا۔
مریم نواز نے جمعے کو سیلاب زدہ لیاقت پور کا بھی دورہ کیا، جہاں انہوں نے ریسکیو اور ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ٹیموں کے کام کو سراہا اور حکم دیا کہ تمام امدادی کارروائیوں میں لائف جیکٹس اور لائف رنگز کو لازمی بنایا جائے۔
انہوں نے یہ ہدایت اس ہفتے جلال پور پیروالہ اور رحیم یار خان کے سیلاب زدہ اضلاع میں دو امدادی کشتیوں کے الٹنے سے 18 افراد کی موت کے بعد دی۔
دوسری جانب بے گھر خاندان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ پانی اترنے کے بعد بھی انہیں خیمے پاس رکھنے کی اجازت دی جائے، کیوں کہ انہیں گھروں کی مرمت یا دوبارہ تعمیر تک پناہ کی ضرورت ہوگی۔
50 سالہ خاتون نسیم نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے گفتگو میں کہا: ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ پانی میرے گاؤں کو ڈبو دے گا۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب پانی چھتوں تک پہنچا تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ وہاں سے بھاگیں۔ ’ہم صرف اپنے جسم پر پہنے ہوئے کپڑوں کے ساتھ ہی نکل سکے۔‘
نسیم اور دیگر بے گھر افراد نے کپڑوں اور بنیادی سامان کی کمی کی شکایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سی خواتین کپڑوں کا ایک ہی جوڑا دھو کر دوبارہ پہننے پر مجبور ہیں۔
سیلاب میں بچ جانے والوں نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں پانی سے گھرے لوگوں کو نکالنے کے لیے نجی کشتی مالکان نے بھاری رقوم طلب کیں، حتیٰ کہ نومولود بچوں کے لیے بھی پیسے وصول کیے۔
مریم اورنگزیب نے جلال پور پیروالہ کے رہائشیوں سے کہا کہ حکومت نے اضافی کشتیاں تعینات کر دی ہیں اور کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم یقینی بنائیں گے کہ ہر ایک فرد کو ریسکیو کیا جائے۔‘
سندھ کی صورت حال
سندھ میں ریسکیو 1122 کے مطابق دادو ضلع میں دریائے سندھ کے کچے کے علاقے میں سیلاب سے متاثرہ گاؤں میں گھر کی دیوار گرنے سے عورت اور اس کی تین سالہ بیٹی جان سے گئے۔
متاثرہ اہل خانہ نے ریسکیو اہلکاروں کو بتایا کہ گاؤں میں سیلاب کا پانی بھر جانے کے بعد گھر کا سامان نکال دیا گیا تھا، گھر میں ایک ہی دیوار بچی تھی جو رات دیر سے گر گئی، جس کے بعد ماں اور بیٹی جان سے گئے۔
سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے ترجمان آنند کمار کے مطابق پنجاب میں سیلاب کے پانی کا بہاؤ سندھ کی طرف جاری ہے اور 13 ستمبر کی رات یا 14 ستمبر کی صبح گڈو بیراج کے مقام پر بڑا سیلابی ریلہ متوقع ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے آنند کمار نے بتایا کہ ہفتے کی دوپہر 12 بجے گڈو بیراج پر پانچ لاکھ 59 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا۔
بقول آنند کمار: ’توقع ہے کہ آج رات یا کل صبح تک گڈو بیراج پر تقریباً سات لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلہ پہنچے گا، مگر اس ریلے سے کوئی بڑا خطرہ نہیں کیوں کہ گڈو بیراج پر پانی کی سطح نو لاکھ کیوسک تک ہونے کے بعد سپر فلڈ ڈکلیئر کیا جاتا ہے۔
’اب تک کی صورت حال کے مطابق آج رات یا کل تک آنے والے سیلابی ریلے کا پانی ایک سے دو روز میں گزر جائے اور اس کے بعد تاحال کسی بڑے سیلابی ریلے کی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔‘
رین اینڈ فلڈ مانیٹرنگ سیل کی جانب سے ہفتے کو جاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ کے 15 اضلاع کی 44 تحصیل میں ایک ہزار چھ سو 51 گاؤں سیلاب سے متاثر ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو اپنے گھر چھوڑنا پڑیں۔
 
            


 
           
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
	             
	             
	             
	             
	             
	             
                     
                     
                     
                    