پاکستانی حکام نے کہا ہے کہ سیلابی پانی جو مشرقی پنجاب کے شہر جلال پور پیر والا کے لیے خطرہ بنا رہا، جمعے کو اترنا شروع ہو گیا، جس سے اس کے سات لاکھ رہائشی محفوظ ہو گئے لیکن پانی کی سطح میں اضافے نے دو قریبی شہروں کے نواحی دیہات کو ڈبو دیا جس کے بعد پریشان حال شہری علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
پاکستان میں قدرتی آفات کے اثرات سے نمٹنے کے ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے کہا کہ جلال پور پیروالا کے اردگرد سرکاری خطرے کے نشان تک پہنچ جانے والا پانی اب نیچے آ رہا ہے اور توقع ہے کہ اگلے 48 گھنٹے میں نمایاں طور پر کم ہو جائے گا۔ این ڈی ایم اے کے مطابق اب سیلابی ریلے صوبہ سندھ کے جنوبی حصے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
جمعے کو امدادی کارکن شجاع آباد اور لیاقت پور سے لوگوں کو نکالنے میں مصروف رہے جہاں آس پاس کے دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے آنے والے سیلاب نے جلال پور پیروالہ کے قریب درجنوں دیہات کو ڈبو دیا اور ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا۔
شہر کے بہت سے لوگ اس وقت نکل گئے جب حکام نے خبردار کیا کہ دریائے ستلج اور چناب کا پانی اس علاقے کی طرف بڑھ رہا ہے اور جلال پور پیروالہ کو مکمل طور پر ڈبو سکتا ہے۔
این ڈی ایم اے کے مطابق انڈیا میں ڈیموں سے پانی چھوڑے جانے اور شدید بارشوں سے آنے والے سیلاب نے گذشتہ ماہ سے پنجاب بھر میں چار ہزار سے زیادہ دیہات کو ڈبو دیا۔ 24 لاکھ افراد بے گھر ہو گئے، 45 لاکھ سے زیادہ کو لوگوں کو متاثر کیا اور لگ بھگ 100 افراد جان سے گئے۔
اتھارٹی کے ترجمان مظہر حسین نے کہا: ’ہمیں امید ہے کہ اگلے 48 گھنٹے میں دریائے چناب اور ستلج کا پانی مزید کم ہو جائے گا، جس سے بے گھر لوگوں کو واپس جانے کا موقع ملے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب سیلابی ریلے صوبہ سندھ کے جنوبی حصے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
صوبہ سندھ 2022 میں تباہ کن سیلاب کا شکار ہوا، جب موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے پاکستان بھر میں 1739 افراد جان سے گئے۔
جلال پور پیروالہ میں ریلیف کیمپوں اور کھلے آسمان تلے رہنے والے بے گھر افراد کی مشکلات میں کمی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز نے وزرا کو، جن میں ان کی کابینہ کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب بھی شامل تھیں، امدادی اور ریسکیو کارروائیوں کی نگرانی کے لیے بھیجا۔
مریم نواز نے نے جمعے کو سیلاب زدہ لیاقت پور کا بھی دورہ کیا، جہاں انہوں نے ریسکیو اور ڈیزاسٹر مینیجمنٹ ٹیموں کے کام کو سراہا اور حکم دیا کہ تمام امدادی کارروائیوں میں لائف جیکٹس اور لائف رنگز کو لازمی بنایا جائے۔
انہوں نے یہ ہدایت اس ہفتے جلال پور پیروالہ اور رحیم یار خان کے سیلاب زدہ اضلاع میں دو امدادی کشتیوں کے الٹنے سے 18 افراد کی موت کے بعد دی۔
دوسری جانب بے گھر خاندان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ پانی اترنے کے بعد بھی انہیں خیمے پاس رکھنے کی اجازت دی جائے، کیوں کہ انہیں گھروں کی مرمت یا دوبارہ تعمیر تک پناہ کی ضرورت ہوگی۔
50 سالہ خاتون نسیم نے کہا: ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ پانی میرے گاؤں کو ڈبو دے گا۔ انہوں نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ جب پانی چھتوں تک پہنچا تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ وہاں سے بھاگیں۔ ہم صرف اپنے جسم پر پہنے ہوئے کپڑوں کے ساتھ ہی نکل سکے۔‘
نسیم اور دیگر بے گھر افراد نے کپڑوں اور بنیادی سامان کی کمی کی شکایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت سی خواتین کپڑوں کا ایک ہی جوڑا دھو کر دوبارہ پہننے پر مجبور ہیں۔
سیلاب میں بچ جانے والوں نے بتایا کہ اابتدائی دنوں میں پانی سے گھرے لوگوں کو نکالنے کے لیے نجی کشتی مالکان نے بھاری رقوم طلب کیں، حتیٰ کہ نومولود بچوں کے لیے بھی پیسے وصول کیے۔
مریم اورنگزیب نے جلال پور پیروالہ کے رہائشیوں سے کہا کہ حکومت نے اضافی کشتیاں تعینات کر دی ہیں اور کسی کو پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا: ’ہم یقینی بنائیں گے کہ ہر ایک فرد کو ریسکیو کیا جائے۔‘
جون کے آخر سے اب تک پاکستان بھر میں سیلاب سے 950 سے زیادہ افراد کی جان جا چکی ہے۔