ڈاکٹر طارق عزیز: 1968 کی جیت سے آج کی ہاکی کے زوال تک

1968 میں پاکستان ہاکی ٹیم نے سمر اولمپکس میں جب سونے کا تمغہ اپنے نام کیا تو اس کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے اور آج کل پاکستان اپنے قومی کھیل میں جس زوال کا شکار ہے اس کی وجوہات کیا ہیں؟ سابق کپتان سے گفتگو۔

’1968 میں جب ہم نے میچ جیتا اور سونے کا تمغہ اپنے نام کیا تو اس وقت ایئر مارشل نور خان فیڈریشن کے صدر تھے، بریگیڈیئر عاطف ہمارے مینیجر تھے اور یہ لوگ ہاکی کو بہت سمجھتے تھے۔

’ہمارا ٹورنامنٹ میکسیکو سٹی میں ہو رہا تھا، اس کی اونچائی سات ہزار فٹ تھی تو انتظامیہ نے ہمارا کیمپ اسی اونچائی پر لوئر ٹوپہ پر لگایا، جہاں ہم نے تین ماہ تک پریکٹس کی۔ اتنی محنت ہوئی کہ ہمیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔‘

اتنی پریکٹس کے بعد جب پاکستان ہاکی ٹیم نے 1968 سمر اولمپکس میں سونے کا تمغہ اپنے نام کیا تو اس وقت پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے ڈاکٹر طارق عزیز۔

1938 میں امرتسر میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر طارق عزیز سے انڈپینڈنٹ اردو کی ملاقات ہوئی تو وہ ہمیں اپنی یادوں میں ساتھ لے گئے اور سمر اولمپکس میں اپنی جیت کی کہانی سنائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویٹنری ڈاکٹر طارق عزیز نے بتایا کہ پاکستان نے تقسیم ہند کے بعد جب 1948 میں اولمپکس میں حصہ لیا تو چوتھی پوزیشن حاصل کی، 1952 میں بھی چوتھی پوزیشن تھی اور اس کے بعد پاکستان نے میڈلز جیتنے شروع کر دیے۔

1956 میں میلبورن اولمپکس میں پاکستان نے چاندی کا تمغہ جیتا، 1960 میں روم میں پاکستان نے انڈیا کو ہرا کر سونے کا تمغہ جیتا تھا جبکہ 1964 میں ٹوکیو میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’1968 میں جب خود میں کپتان تھا، تو پاکستان نے آسٹریلیا کو ہرا کر سونے کا تمغہ اپنے نام کیا۔‘

ڈاکٹر طارق عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اولمپکس میں چار سونے کے تمغے جیتے، جن میں حال ہی میں جیولن تھرو میں ارشد ندیم نے پیرس میں جیتا، ورنہ اس سے پہلے تینوں سونے کے تمغے ہاکی کی ٹیم ہی لے کر آئی۔

سابق کپتان نے اپنی جیت کی کہانی جاری رکھتے ہوئے بتایا: ’جب ہم وہاں گئے تو کوئی نہیں سوچتا تھا کہ پاکستان سونے کا تمغہ جیت کر آئے گا کیونکہ 1964 میں ہم نے چاندی کا تمغہ جیتا، 1966 میں ایشین گیمز بینکاک میں ہم نے چاندی کا تمغہ جیتا، لندن میں 1967 میں ایک فیسٹیول ہوا، جس میں انڈیا کو ہرانے کے باوجود ہماری چوتھی پوزیشن تھی، اسی لیے ہماری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے لوگ سمجھتے تھے کہ ہمارے لیے میچ جیتنا مشکل ہو گا۔

’جب ہم نے وہاں پہلا میچ ہالینڈ کے خلاف کھیلا تو ہم نے انہیں چھ صفر سے ہرا دیا، جس کے بعد ساری دنیا کہنے لگی کہ نہیں بھئی یہ بھی ٹیم ہے جو جیت سکتی ہے۔ ہماری اکیلی ٹیم تھی جو تواتر سے پول کے سارے میچ جیتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا کے خلاف ہمارا میچ تھا اور ہاف ٹائم تک وہ ہم سے جیت رہے تھے۔ ’ایئر مارشل نور خان میرے پاس آئے اور پوچھا طارق کیا بات ہے، یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا کوئی بات نہیں، ابھی 35 منٹ ہیں، ہم جیتیں گے۔ وہ تھوڑے بوکھلائے ہوئے تھے۔ اس کے بعد ہم نے دوسرے ہاف میں دو گول کیے اور تین دو سے جیت کر باہر آئے۔‘

طارق عزیز نے بتایا کہ  میڈلز لانے میں ہاکی کی بڑی اچھی روایت تھی۔ ’1972 میں ہم نے چاندی کا تمغہ جیتا، 1976 میں برانز میڈل جیتا، 1980 میں بھی ہم سونے کا تمغہ جیت جاتے لیکن چونکہ اولمپکس ماسکو میں ہو رہے تھے تو اکثر ٹیموں نے وہاں بائیکاٹ کیا اور پاکستان نے بھی ان اولمپکس میں حصہ نہیں لیا تھا ورنہ یقیناً پاکستان سونے کا تمغہ جیتتا۔

’پاکستان نے 1984 میں لاس اینجلس میں سونے کا تمغہ جیتا اور وہ ہاکی میں پاکستان کا آخری سونے کا تمغہ ہے۔ اس کے بعد 1992 میں برانز میڈل ملا تھا لیکن اس کے بعد پاکستان ہاکی کی ایسی تنزلی ہوئی کہ ہم اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے۔‘

طارق عزیز کہتے ہیں کہ ’1968 کے اولمپکس کے بعد انہوں نے ہاکی چھوڑ دی تھی۔ میں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ 1969 میں لاہور میں ایک فیسٹیول ہونا تھا جس کے لیے ایئر مارشل نور خان نے مجھے کافی کہا کہ اس میں پاکستان کی دو ٹیمیں کھیل رہی ہیں اور میں اس میں بطور کپتان حصہ لوں اور اس کے بعد ریٹائر ہو جاؤں لیکن میں نے کہا نہیں، میں شادی کر رہا ہوں۔

’اس کے بعد مجھے 1969 سے 1975 تک سلیکٹر بنا دیا گیا لیکن پھر میں نے ریزائن کر دیا۔ 1978 میں مجھے پھر سے سلیکٹر بنایا گیا اور مجھے جونیئر ٹیم دے دی گئی جس کے بعد پہلا جونیئر ورلڈ کپ 1979 میں پیرس میں ہوا۔ میں ٹیم کا مینیجر تھا اور منظور جونیئر اس ٹیم کے کپتان تھے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسی ٹیم نے گولڈ میڈل جیتا اور جونیئر ٹیم کا وہی ایک گولڈ میڈل ہے ہمارے پاس۔ ورنہ ہر چار سال بعد جونیئر ورلڈ کپ ہوتا ہے جس میں پاکستان نے چاندی کا تمغہ بھی جیتا، برانز بھی جیتے لیکن اس کے بعد سونے کا تمغہ نہیں جیتا۔‘

طارق عزیز کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کارکردگی کو دیکھ کر شائقین اور ہاکی سے محبت کرنے والوں کو افسوس تو ہوتا ہے لیکن حکومت کے تعاون کے بغیر ہاکی میں بہتری ممکن نہیں ہے۔

’ہاکی مہنگی بہت ہو گئی ہے۔ ہمارے زمانے میں اتنی مہنگی نہیں تھی۔ اب ہاکی ٹیم نے پرو لیگ میں جانا ہے تو اس کے لیے اخراجات کا تخمینہ 35 کروڑ روپے ہے۔ اس میں کیمپ ہوگا، جہاز کا سفر ہوگا، رہائش ہوگی۔ حکومت پاکستان نے 25 کروڑ دینے کا تو مان لیا ہے لیکن باقی 10 کروڑ ہمیں خود اکٹھا کرنا ہے اور یہ کام ہاکی فیڈریشن کے لیے مشکل ہے۔‘

ڈاکٹر طارق عزیز نے مشورہ دیا کہ کوئی ایسی تنظیم یا محکمہ ہاکی کی ذمہ داری لے لے جیسے انڈیا میں ہے کہ ہر صوبے کی ہاکی ٹیم کسی نہ کسی بڑی پارٹی نے لی ہوئی ہے۔ جتنا بھی سال میں خرچہ ہو گا وہ دیں گے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

’کرکٹ میں بھی تو کیا ہوا ہے کہ انہیں سپانسر ملتے ہیں اور ٹیمز لی ہوئی ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہاکی کے لیے ہو جائے، چاہے قومی سطح پر ہی ہو تو بات بن جائے گی۔‘

ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ہاکی کو سکولوں میں عام کیا جانا چاہیے کیونکہ اب سکولوں میں پہلے کی طرح ہاکی نہیں کھیلی جاتی کیونکہ وہاں گراؤنڈز کم ہو گئے ہیں۔ اسی طرح اگر جونیئرز کے لیے کوئی اکیڈمیاں لاہور، کراچی، پشاور، راولپنڈی میں بنا لی جائیں اور ہاکی پلئیرز کو پکی نوکریاں دے دی جائیں، بہتر کوچز لگائے جائیں تو تین چار سال میں یقیناً ہاکی کی ایک اچھی ٹیم بن سکتی ہے جو بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ٹیم سے مقابلہ کر سکے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی