چمن بارڈر پر پھنسے افغانوں کی مدد کرنے والے سماجی کارکن

چمن۔سپن بولدک بارڈر پر ہزاروں افغان خاندان دنوں نہیں بلکہ ہفتوں تک زیرو پوائنٹ پر ٹھہرنے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں کھلے آسمان تلے نہ مناسب خوراک، نہ پانی اور نہ ہی سایہ میسر ہے۔

بلوچستان کے چمن۔سپن بولدک بارڈر پر وطن واپسی کے منتظر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی ایک سنگین انسانی بحران کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ایسے میں کچھ پاکستانی رضاکار امید کی کرن بن کر ان افراد کی مدد میں پیش پیش ہیں۔

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی واپسی کی حکومتی مہم کے بعد صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید خراب ہو رہی ہے۔ بارڈر پر رش اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہزاروں افغان خاندان دنوں نہیں بلکہ ہفتوں تک زیرو پوائنٹ پر ٹھہرنے پر مجبور ہیں، جہاں انہیں کھلے آسمان تلے نہ مناسب خوراک، نہ پانی اور نہ ہی سایہ میسر ہے۔

یہ وہی مقام ہے جہاں سماجی کارکن عبدالولی منڈولی جیسے لوگ اپنی جیب سے شروع کی گئی ایک چھوٹی کاوش کو آج ایک بڑے انسانی مشن میں بدل چکے ہیں۔

عبدالولی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہم مسلمان ہیں اور یہ ہمارے افغان بھائی ہیں، ہم پانچ سالوں سے یہاں پھنس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی خدمت کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق یہاں روزانہ تقریباً 30 دیگیں تیار ہوتی ہیں اور پانچ سے چھ ہزار تک روٹیاں۔ یہ کھانا دن ہو یا رات، ہر صورت ان پناہ گزین خاندانوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ بچے، خواتین اور بزرگ اسی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔

عبدالولی منڈولی نے مزید بتایا کہ یہ سب ایک دن میں ممکن نہیں ہوا۔ ’شروع میں میرے پاس صرف 500 روپے تھے۔ میں نے ایک ویڈیو بنا کر لوگوں کو حالات دکھائے، پھر لوگوں نے مدد شروع کر دی۔ آج ہم روزانہ 30 دیگیں پکا رہے ہیں۔ لوگ اپنی حیثیت کے مطابق کھانا، پانی، روٹی، گوشت، جو بن پڑتا ہے لے آتے ہیں۔ کچھ سو روپے، کچھ ہزار اور کچھ لاکھ روپے تک تعاون کرتے ہیں۔‘

یو این ایچ سی آر کی تازہ رپورٹ کے مطابق گذشتہ سات ماہ میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین پاکستان سے واپس جا چکے ہیں جبکہ اسی عرصے میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو گرفتار یا حراست میں لیا گیا۔ مارچ 2025 میں پاکستانی حکومت نے افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہولڈرز کو بھی واپسی پر مجبور کیا تھا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر میں ایک لاکھ 80 ہزار اور اکتوبر میں ایک لاکھ 54 ہزار افغان پناہ گزین واپس بھیجے گئے، جبکہ صرف پروف آف رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ ہولڈرز میں سے آٹھ ہزار سے زائد افراد بھی گرفتار کیے گئے۔

نومبر کے پہلے ہفتے میں مزید 56 ہزار افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہوئی، جن میں 13 ہزار 548 جبری ملک بدری کے کیسز شامل تھے۔

چمن، سپین بولدک اور دیگر کراسنگ پوائنٹس پر ایک وقت میں ہزاروں خاندان پھنسے رہتے ہیں۔ بچے زمین پر سو کر رات گزارتے ہیں، جبکہ خواتین کو دن میں تیز دھوپ اور رات کو شدید سردی کا سامنا ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عبدالولی منڈولی کے مطابق: ’یہ لوگ تین تین، پانچ پانچ دن یہاں پھنسے رہتے ہیں۔ ہزاروں گھرانے انتظار کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارا مسلم فریضہ ہے کہ ہم ان کی مدد کریں۔‘

چمن بارڈر پر جاری یہ امدادی سرگرمی جہاں ہزاروں پناہ گزین بھوک، تھکاوٹ اور بے یار و مددگاری کی حالت میں ہیں، وہیں انسانیت، بھائی چارے اور مذہبی اخوت کی ایک روشن مثال بھی ہے۔ یہ منظر واضح کرتا ہے کہ مشکل وقت میں قومیں کیسے ایک دوسرے کا سہارا بنتی ہیں۔

جیسا کہ عبدالولی کا کہنا ہے: ’ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کریں تاکہ یہ لوگ سکون سے اپنے گھروں تک پہنچ سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی