کسے پتہ تھا کہ ہیری ٹرومین اتنے ’باشعور‘ تھے؟ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق وہ شخص جو اس وقت ان کے عہدے پر فائز ہونے والے 33واں فرد تھے۔
وہی شخص جنہوں نے جنگ کے دوران عام شہریوں پر ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا حکم دیا۔
انہوں نے 1947 میں محکمہ دفاع کے قیام کے قانون پر اس لیے نہیں دستخط کیے تھے کہ ملک کی عسکری تیاری کو بہتر بنایا جائے بلکہ، ٹرمپ کے بقول، اس کے پیچھے ’سیاسی درستی‘ تھی۔
وول آفس میں وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ اور چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ڈین کین کے ساتھ بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے دو عالمی جنگوں میں ملک کی کامیابیوں کی تاریخ کا حوالہ دیا۔
انہوں نے کہا دوسری عالمی جنگ کے بعد کی حقیقتوں نے محکمہ جنگ کے نام کو بدل کر اس کی پالیسی میں تبدیلی کو ضروری بنا دیا۔
انہوں نے کہا ’ہم نے پہلی عالمی جنگ جیتی۔ ہم نے دوسری عالمی جنگ جیتی۔ ہم نے اس سے پہلے اور درمیان کی ہر چیز جیت لی۔
’اور پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ باشعور بنیں اور نام بدل کر محکمہ دفاع رکھ دیا۔ تو ہم دوبارہ محکمہ جنگ بننے جا رہے ہیں۔‘
ٹرمپ رواں موسم گرما کے شروع سے ہی دنیا کے سب سے طاقتور فوجی ادارے کو اس کے پرانے نام سے پکار رہے ہیں۔
انہوں نے سابق فاکس نیوز کے میزبان اور فوج کے سابق میجر ہیگسیتھ کو ’وزیر جنگ‘ کہنا شروع کر دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے ہیگستھ بہت خوش ہوتے ہیں۔
انہوں نے اپنی عوامی زندگی کا بڑا حصہ امریکہ کی فوجی روایت کے زیادہ جارحانہ اظہار کی وکالت میں گزارا، جس میں سزا یافتہ جنگی مجرموں کی معافی کے لیے دباؤ ڈالنا اور خواتین اور ایل جی بی ٹی پلس افراد کو امریکی افواج میں شامل کیے جانے پر شکایت کرنا شامل ہے۔
اب وہ اس پرانے عہدے کو استعمال کر سکیں گے جو آخری بار کنیتھ سی رائل کے پاس تھا۔ یہ عہدہ ستمبر 1947 میں ختم کر دیا گیا۔
لیکن ہیگسیتھ کی ذمہ داریاں اب بھی سابقہ محکمہ جنگ سے کہیں زیادہ ہیں جو 1947 میں قومی سلامتی سلامتی کے قانون پر ٹرومین کے دستخط کرنے تک صرف امریکی فوج اور اس وقت اس سے منسلک امریکی آرمی ایئر کور کی نگرانی کے ذمہ دار تھے۔
اس تاریخی بل نے فضائیہ کو الگ کر کے اسے فوج اور بحریہ (اور اس کے ساتھ میرین کور) کے ساتھ ایک ہی کابینہ کے افسر کی نگرانی میں دے دیا۔
کیا یہ اس لیے تھا کہ ٹرومین ’باشعور‘ تھے؟ بہت زیادہ نہیں۔
امریکہ نے محکمہ دفاع کا نام بدل کر ’محکمہ جنگ‘ کر دیا
— Independent Urdu (@indyurdu) September 6, 2025
مزید تفصیلات: https://t.co/z5Vz3HDRpS pic.twitter.com/8LZ9cHMf3Y
محکمہ دفاع کا قیام ٹرومین اور اس وقت کی کانگریس کی اس سمجھ بوجھ کا حصہ تھا کہ جنگ کے بعد کی دنیا، ایک ایٹمی دنیا، میں مخالف بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات کی بنیاد دفاعی صلاحیت پر ہونے کی ضرورت ہے۔
جس دور میں جوہری اور اس سے بھی زیادہ طاقتور تھرمونیوکلیئر ہتھیاروں کا مستقل خطرہ موجود تھا، 1947 سے بنایا گیا نظام امریکہ اور مغربی جمہوری اتحادیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے تھا۔
اس کا مقصد چھوٹے تنازعات کو بے قابو ہونے سے روکنا تھا تاکہ وہ بڑی جنگ کی صورت اختیار نہ کر لیں۔
یہ نظام اس تباہ کن عالمی جنگ کے بعد اٹھائے گئے دوسرے اقدامات کی ایک کڑی بھی تھا تاکہ دوبارہ ایسی جنگ کبھی نہ ہو۔ ان اقدامات میں اقوام متحدہ، نیٹو اور دیگر بین الاقوامی کثیر جہتی تنظیموں کا قیام شامل تھا۔
اس کے بعد سے امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ روابط کو مضبوط بنایا اور ایسے شعبوں میں کئی سطحوں پر مشتمل دفاعی نظام قائم کیے ہیں جن کا ٹرومین 1947 میں صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے، جن میں سائبر سپیس اور خلا بھی شامل ہیں۔
اس کے برعکس ٹرمپ کا عالمی نظریہ اور پالیسی مؤقف تقریباً ان سب کو مسترد کرنے پر مبنی ہے تاکہ دوبارہ ایک زیادہ جارحانہ دور کی طرف لوٹا جا سکے جب بڑی طاقتیں ایٹمی دور سے پہلے اپنی باہمی اختلافات جنگ کے ذریعے طے کرتی تھیں۔
لارنس ولکرسن، جو ریٹائرڈ امریکی فوجی کرنل، سابق وزیر خارجہ (اور سابق جوائنٹ چیفس چیئرمین) کولن پاول کے چیف آف سٹاف رہ چکے ہیں، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ٹرمپ کا یہ حکم ’بہت برا الٹا قدم ہو سکتا ہے‘ کیوں کہ یہ ’اس بات پر مہر ثبت کرتا ہے جو دنیا کے نزدیک ٹرمپ بنیادی طور پر کر رہے ہیں۔‘
’یہ وہ چیز نہیں جسے ہمیں باقی دنیا کے ساتھ مزید مضبوط کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا اور نشاندہی کی کہ امریکہ تیزی سے بدلتی ہوئی جدید دنیا میں اتحاد مضبوط کرنے کی دوڑ میں ’پیچھے رہ گیا ہے۔‘
ایک ایسی دنیا جو جلد ہی ابھرتے ہوئے چین اور دوبارہ طاقتور بنتے روس کے زیر اثر آ سکتی ہے۔
ولکرسن جو ویت نام کی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور جنہوں نے 2003 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے عراق پر حملے کے حق میں دلیل پیش کرنے کے لیے پاول کو تیار کیا، بعد میں اس حملے کے ناقد بن گئے انہوں نے ٹرمپ اور خاص طور پر ہیگسیتھ کے نظریے پر تشویش کا اظہار کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ نظریہ بنیادی طور پر یہ مانتا ہے کہ اصل طاقت صرف سخت فوجی طاقت ہے جب کہ وہ نرم طاقت جس سے امریکہ نے گذشتہ 80 برسوں میں اتحادیوں کو متاثر کیا اور دوست بنائے، وہ بزدلوں، کمزوروں اور باشعور کہلانے والوں کے لیے ہے۔
ہیگسیتھ نے ٹرمپ کے بعد اوول آفس میں بات چیت کرتے ہوئے اسی خدشے کو دہرایا، جب انہوں نے فخر سے کہا کہ یہ قدم ’جنگجوؤں کے کردار کو واپس لانے، جیت اور صراحت کو حتمی ہدف بنانے، اور طاقت کے استعمال میں ارادے کو بحال کرنے‘ کے بارے میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم صرف دفاع نہیں بلکہ حملہ کریں گے۔ زیادہ سے زیادہ تباہ کن طاقت استعمال کریں گے۔
’محض کمزور قانونی راستے اختیار نہیں کریں گے۔ سخت اثر ڈالیں گے۔ سیاسی درستی نہیں دیکھی جائے گی۔‘ ہیگسیتھ نے عزم ظاہر کیا کہ وہ 'محض دفاع کرنے والے نہیں بلکہ جنگجو تیار کریں گے۔‘
اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ’دفاع‘ کمزوری کی علامت ہے اور ’جنگ‘ طاقت کی علامت ہے۔
ہیگسیتھ، جو عراق اور افغانستان کی جنگوں میں حصہ لے چکے ہیں، شاید یہ بھول گئے کہ اس شعبے کا نعرہ جہاں وہ کبھی خدمات انجام دے چکے ہیں یہ ہے کہ ’یہ ہم دفاع کریں گے۔‘
لیکن یہ سابق ٹی وی میزبان جو اس عہدے کے قیام کے بعد سے سب سے کم تجربہ کار وزیر دفاع ہیں، شاید واقعی اپنی یہ خواہش پوری کر لیں کہ طاقت کا استعمال زیادہ ہو۔
چوں کہ کیوں کہ ٹرمپ نے جنگ کے بعد بنائی گئے دوسری اداروں کو بھی کمزور کیا ، جن میں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کو توڑنا، وائس آف امریکہ کو بند کرنا اور محکمہ خارجہ کے غیر ملکی امدادی بجٹ میں اربوں ڈالر کی کمی شامل ہے۔
یہ سب اقدامات اس امکان کو بڑھاتے ہیں کہ پینٹاگون، اسے جو بھی نام دیا جائے، اسے جلد یا بدیر جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
© The Independent