پاکستانی پاپ میوزک: نازیہ زوہیب سے اے آئی تک

ایک زمانہ تھا کہ پاکستانی پاپ برسوں تک پورے برصغیر میں سنے جاتے تھے، مگر اب گیتوں کی عمر انتہائی کم ہو کر رہ گئی ہے۔

نازیہ حسن کے 1981 میں آنے والے البم ڈسکو دیوانے کو جو مقبولیت ملی وہ آج بھی برقرار ہے (ایچ ایم وی)

پاکستان میں پاپ موسیقی مختلف اتارچڑھاؤ کے مراحل سے گزری ہے۔ ایک زمانے میں پورے برصغیر میں پاکستانی پاپ موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا اور نازیہ زہیب، محمد علی شہکی، عالمگیر اور دوسرے فنکار ملک کے سب سے مشہور افراد میں شمار کیے جاتے تھے۔

مگر رفتہ رفتہ زمانہ بدلا اور اب اکثر ماہرین کی رائے ہے کہ پاپ موسیقی کو اس قدر پذیرائی نہیں مل رہی جو ماضی میں اس کا ورثہ رہی ہے۔

پاپ میوزک آئیکون فاخر نے انڈپینڈنٹ اردو کو پاکستان میں پاپ میوزک اور اس کے ارتقا کے حوالے سے بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ رائلٹی کا ہے: ’پاکستان میں میوزک بہت اچھا بن رہا ہے، لیکن انڈسٹری تبھی کھڑی رہ سکے گی جب فنکاروں کو رائلٹی ملتی رہا کرے، رائلٹی کا مسئلہ ہمیشہ سے تھا اب یو ٹیوب سے کچھ پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میوزک انڈسٹری پنپ رہی ہے، کبھی خوبصورت انداز میں تو کبھی بھونڈا پن بھی شامل ہو جاتا ہے، جیسا کہ اس وقت تھوک کے بھاؤ ملی نغمے بن رہے ہیں۔ ہم میوزک بناتے نہیں ہیں بلکہ حالات کی رو میں بہہ کر گانے لکھتے، گاتے اور بیچ پاتے ہیں۔ سپانسر حاصل کرنے کے لیے بھی ملی نغمہ بنا کر بیچنا پڑتا ہے۔‘

بقول گلوکار فاخر ’عالمگیر، شہکی اور رونا لیلیٰ بلاشبہ پاپ گانے گا رہے تھے لیکن دھنیں اصلی کم اور نقل زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ لیکن ہم سبھی کو بھلی لگتیں اور خوب سنی جاتیں۔ پلیجرازم (نقل) کل بھی تھا ور آج بھی اکثر مل جاتا ہے۔‘

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں پاپ میوزک، نازیہ حسن اور زہیب حسن سے عبارت ہے۔ لیکن موسیقار اور میوزک پروڈیوسر ارشد محمود کے مطابق پہلے پاپ  گائیک پاکستانی سینیما کے گلوکار ’احمد رشدی‘ تھے۔ پاکستانی سینیما میوزک کا بھی پاپ موسیقی میں اپنا ایک کردار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شوبز صحافی عمیر علوی پاکستانی فلم، ٹی وی اور میوزک پہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے بقول ’پاکسستان میں 60 کی دہائی میں، سہیل رعنا، مصلح الدین اور روبن گھوش نے ملک میں پاپ میوزک کو پروان چڑھایا، اور مصلح الدین سرفہرست رہیں گے۔ پاکستان میں یہ سبھی لوگ انگریزی موسیقی سنا کرتے تھے، ’کم سیپٹمبر، سمجھ نہ آئے دل کو کہاں لے جاؤں‘ وغیرہ اسی دور میں بنے۔ گیت کاروں کے حساب سے کوئی بڑے نام ایسے تو نہیں رہے، سوائے مسرور انور صاحب کے لکھے گیت ’کوکو کورینا‘ کے، اور فلموں میں واحد پاپ سنگر احمد رشدی تھے۔

جہاں تک بات ہے پاکستان ٹیلی وژن پہ پاپ موسیقی کی تان چھیڑنے کی تو اس بارے میں نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس یا ’ ناپا‘ کے ہیڈ آف میوزک حمزہ جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے رائے کچھ یوں بیان کی، ’پی ٹی وی پہ پاپ میوزک کو متعارف کرانے اور پروڈیوس کرنے میں شعیب منصور کا اہم کردار ہے، انہوں نے وائٹل سائنز، آواز، جنون سبھی میوزک بینڈز کے لیے راہ ہموار کی، اور ٹیلی ویژن کے مخصوص انداز سے ہٹ کر موسیقی پہ کام ہوا۔‘

یہ وہ دور تھا، جب پی ٹی وی پہ لائٹ اور پاپ موسیقی نے جنم لیا، لیکن اس دور میں بدقسمتی سے گانے والوں کی فہرست سے احمد رشدی کو خارج کر دیا گیا، عالمگیر، شہکی، رونا لیلیٰ اور خالد وحید نے سٹیج سنبھالا اور کئی برس راج کیا۔

 جب 80 کی دہائی میں پی ٹی کو ایک نئی جہت پہ موسیقی پروڈیوس کرنے کا موقع ملا اور جسے دیکھنے اور سننے والوں نے بہت سراہا۔ اس دور کو چار چاند تب لگے جب پی ٹی پہ نازیہ اور زہیب حسن بہن بھائی کی جوڑی نے شہرت کی بلندیاں چھو لیں۔

نازیہ اور زہیب حسن کی موسیقی، نغمہ نگاری، ان کی شخصیات، ان کا خوش شکل ہونا، ان کا انداز، سبھی ایک مکمل پیکج تھا، ان کی موسیقی اور گائیکی کا انداز بچوں، بڑوں سبھی میں مقبول عام ہوا۔ ان کی البم کا ہر گانا سننے سے تعلق رکھتا تھا۔

بقول عمیر علوی، ’نازیہ اور زہیب حسن نے عالمگیر اور شہکی کے بعد پی ٹی وی کی سکرین پہ اپنا جلوہ بکھیرا اور وہ بین الاقوامی سطح سے پاکستان ٹیلی وژن تک پہنچے تھے۔ ان کی چھاپ ہی الگ تھی۔ وائٹل سائنز نے بھی انہی کے فارمولا پہ گانے بنائے اور وہ بھی خوب چلے۔‘

پاکستان میں بقول کہنہ مشق موسیقار اور میوزک پروڈیوسر ارشد محمود کے ’پاپ  میوزک تو 1947 کے سینیما کی موسیقی سے موجود تھا، چاہے وہ ’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کے‘ ہو یا ’گاڑی کو چلانا بابو‘ یہ بھی پاپ موسیقی میں ہی شمار ہوتا ہے۔

پی ٹی وی نے بھی ہلکی موسیقی کے ساتھ پاپ میوزک اور فلم میوزک سے ہٹ کے کام کیا، کیونکہ ’مولا جٹ‘ پہ رومانوی یا پاپ گانا فلم بند کرنا مزیدار نہ ہوتا۔ انڈیا میں ایسا نہیں دیکھا گیا، وہاں فلمی موسیقی سے ہٹ کے اس دور میں کوئی خاص موسیقی نہیں بنائی گئی۔ لیکن پاکستان ٹیلی وژن نے اس سمت میں نئی راہیں نکال لیں۔‘

موسیقی کے حوالے سے ایک بات جو اہم مانی جائے گی اور جس پر گلوکار فاخر محمود سمیت مبصرین نے اتفاق کیا وہ یہ کہ میوزک اب بھی بن رہا ہے، صوفی طرز پر، پاپ انداز میں، فوک یا لوک موسیقی کا دامن بھی پکڑا ہوا ہے، لیکن اس میوزک کی ’شیلف لائف‘ چند ماہ یا چند سال ہوتی ہے، یہ نازیہ اور زہیب جیسی لافانیت کی حامل نہیں۔

جہاں تک کوک سٹوڈیو کا تعلق ہے تو بقول ارشد محمود، حمزہ جعفری، فاخرمحمود اور عمیر علوی، کوک سٹوڈیو کے پاس متاثر کن ہلا گلا تو ہے لیکن، موسیقی کو لافانی بنائے رکھنے کا گر ابھی شاید نہیں آ سکا، یہ سب سپانسرڈ کام ہوتا ہے جو کوک کی تھیم کے مطابق ہوتا ہے اور اس کی ایک خاص مارکیٹ آڈینئنس بھی ہوتی ہے وہ گانے بنا رہے ہیں پاپ میوزک نہیں کر رہے۔ ہر 20 سال بعد میوزک تبدیل ہوتا ہے لیکن اب یہ گانے لمبے عرصے تک پائیدان پہ نہیں ٹھہر پاتے۔‘

جہاں تک موسیقی کے ارتقا کی بات ہے تو، اب نئے زمروں  میں بھی کام کیا جاتا ہے جیسے ریپ یا ہپ ہاپ طرز موسیقی۔ اس پر مزید روشنی ڈالی شوبز کے ماہر صحافی، عمیر علوی نے۔ ان کا کہنا تھا، ’موسیقی اب بھی بن رہی ہے، ریپ جیسی جانرا کا بھی کافی بول بالاہے لیکن اب گانے چھ مہینے یا سال بھی ہی اپنی لائف نہیں نکال پاتے ہیں، نہ اب کوئی ٹاپ چارٹ سسٹم ہے کہ جس سے پتہ لگایا جا سکے کہ ایک گانا کتنے عرصے مقبول رہا اور سننے والوں نے کیا رائے دی۔‘  

وقت بدل رہا ہے، اے آئی کا دور ہے۔ ’چیٹ جی پی ٹی‘ چٹکی بجاتے ہی سب مال تیار کر دیتا ہے، بس آپ کو نمک مرچ اور شکل کا حوالہ دینا باقی رہ جاتا ہے، جو ہدایت دو ویسا کام ہو جاتا ہے، نہ گلو کار کی ضرورت نہ موسیقار کی نہ ہی گیت کار کی۔

بقول حمزہ جعفری ’جیسے بیتھووین اپنے دماغ میں طرز لکھ کے آرکیسٹرا والوں کو بتا دیا کرتے تھے اب اسی طرح ہم اے آئی یا چیٹ جی پی ٹی کو اپنی ترکیب بتاتے جائیں گے اور وہ طبلے سارنگی کی آمیزش میں ایکوسٹک گٹار کی ترنگ ڈال کے ہمیں، میڈم نور جہاں کی طرز گائیکی کو بھی چھیڑتے ہوئے گانا بنا کے دے سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ