وفاقی سیکرٹری خزانہ امداداللہ بوسال نے جمعرات کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ ’کرپٹو کونسل کا قیام وزیراعظم کے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے عمل میں لایا گیا‘، تاہم پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر تاحال پابندی برقرار ہے۔
سیکریٹری خزانہ نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے ملک میں ابھی تک کرپٹو کرنسی کے کاروبار کو قانونی حیثیت نہیں دی۔
چئیرپرسن نفیسہ شاہ کی زیرِ صدارت قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران ریگولیٹری فریم ورک کے بغیر ڈیجیٹل کرنسی کی طرف پالیسی شفٹ سے متعلق معاملہ زیر غور آیا۔
سیکرٹری وزارت خزانہ نے کہا کہ ’فی الحال کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ابتدائی بات چیت ہو رہی ہے، جب کہ سٹیٹ بینک اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں کرپٹو پر ابھی تک پابندی برقرار ہے۔‘
سٹیٹ بینک حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ مرکزی بینک اور ایس ای سی پی نے مل کر کرپٹو کرنسی کے معاملے پر ابتدائی کام شروع کیا ہے، کرپٹو کرنسی فی الحال ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امداد اللہ بوسال کا کہنا تھا کہ ’جب حکومت کوئی فیصلہ کرے گی تب ہی ریگولیٹری فریم ورک سامنے آئے گا۔‘ انہوں نے واضح کیا کہ ’پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ اس پر اب بھی پابندی برقرار ہے اور اس کی لیگل ٹریڈنگ نہیں کی جا سکتی۔‘
سیکریٹری خزانہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب نے رواں ہفتے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت کی زیر قیادت بٹ کوائن کو قومی ذخائر کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔
لاس ویگاس میں بٹ کوائن 2025 کے نام سے تقریب میں خطاب میں بلال بن ثاقب نے کہا تھا کہ ’پاکستانی حکومت اپنی حکومت کی زیر قیادت بٹ کوائن سٹریٹجک ریزرو قائم کر رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’یہ نیشنل بٹ کوائن والٹ، قیاس آرائیوں کے لیے نہیں ہے۔ ہمارے پاس یہ بٹ کوائنز ہوں گے اور ہم انہیں کبھی فروخت نہیں کریں گے۔‘
اسی تناظر میں قائمہ کمیٹی اجلاس کے دوران رکن کمیٹی مرزا اختیار بیگ نے سیکرٹری خزانہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’آپ کہہ رہے ہیں کہ کرپٹو پر پابندی ہے لیکن لوگ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آپ نے کرپٹو کی پروجیکشن ایسی کی ہے کہ لوگ اس طرف آ رہے ہیں۔
’اگر کل کو کرپٹو کرنسی قبول نہیں کی جاتی تو لوگوں کا پیسہ تو ڈوب جائے گا۔ ایسا کوئی بیان جاری کریں کہ کرپٹو ابھی قانونی فریم ورک سے گزر رہی ہے۔‘
دوسری جانب فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین نے کہا کہ جب کسی کمپنی یا بینک کو غیر معمولی منافع حاصل ہوتا ہے تو اس پر ونڈ فال ٹیکس عائد ہوتا ہے، جو صرف بینکوں کے لیے ہے، کسی اور کمپنی پر لاگو نہیں ہوتا۔
اجلاس کے دوران رکن کمیٹی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ کرپٹو کرنسی مائننگ کے لیے دو ہزار میگا واٹ بجلی کس وجہ سے رکھی گئی؟ جبکہ رکن کمیٹی مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ کرپٹو مائننگ کے لیے آٹھ سے 10 سینٹس بجلی کی قیمت رکھی گئی ہے، جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کتنے عرصہ سے برآمدات بڑھانے کے لیے یہ ٹیرف مانگ رہی ہے۔
پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے ’دو ہزار میگاواٹ بجلی‘ مختص کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اسی بنا پر سیکرٹری خزانہ اور سٹیٹ بینک حکام نے کہا کہ ان سوالات کا جواب کرپٹو کونسل ہی دے سکتی ہے، اس لیے انہیں آئندہ اجلاس میں بلایا جائے۔
کمیٹی رکن محمد مبین نے سوال اٹھایا کہ ’سٹیٹ بینک کرپٹو کرنسی کو کیوں نہیں دیکھ رہا؟ سرکار کیوں دیکھ رہی ہے؟ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ کرپٹو قانونی نہیں، دوسری طرف بجلی مختص کر دی۔ کرپٹو کونسل کے سی ای او تو بہت اہم لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔‘
رکن کمیٹی شہرام ترکئی نے کہا کہ کرپٹو میں کچھ عرصے بعد کئی ڈالر ملک سے باہر چلے جائیں گے اور حکومت سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ یہ کیا ہو گیا۔
اسامہ احمد میلا نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت خود کرپٹو کی مائننگ کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے یا نجی سیکٹر کرے گا؟ پہلے حوالہ ہنڈی ہوتی تھی اب کرپٹو کے ذریعے پیسہ باہر جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرپٹو کرنسی کو 2000 میگاواٹ بجلی دینے کی بجائے یہی بجلی صنعتوں کو کیوں نہیں دی جاتی؟
اس پر سٹیٹ بینک کے حکام نے جواب دیا کہ مرکزی بینک کی جانب سے کرپٹو کرنسی پر پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
چیئرپرسن کمیٹی نفیسہ شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ اور سٹیٹ بینک کے بغیر کرپٹو کونسل کیسے بن گئی؟
جس پر سیکرٹری وزارت خزانہ نے کہا کہ ’وزیراعظم نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے یہ کونسل بنائی۔‘
بعد ازاں کمیٹی نے کرپٹو کونسل اور کرپٹو کے لیے 2000 میگاواٹ کے معاملے پر سیکرٹری توانائی سے بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا۔
اجلاس کے دوران سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کہا کہ وفاقی بجٹ 10 جون کو ہی پیش کیا جائے گا، جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا رہی۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ آئندہ مالی سال سے اساتذہ کو انکم ٹیکس ریبیٹ حاصل ہو گا، تاہم بعد میں کابینہ نے اس کی منظوری دے دی۔