ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی کے اعلان سے کرپٹو کرنسی قانونی ہو گئی؟ 

2021 میں پاکستان میں کرپٹو کرنسی میں تقریباً 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی جو 2023 میں ایف پی سی سی آئی کی رپورٹ کے مطابق 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

21 مئی 2025 کو پاکستان کی وفاقی وزارت خزانہ نے ملک میں غیر رسمی کرپٹو مارکیٹ کو ریگولیٹ اور عالمی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا (اے ایف پی)

وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں ڈیجیٹل اثاثوں کے لیے ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کا فیصلے کا خیر مقدم کرنے کے ساتھ اس فیصلے کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ڈیٹا سائنٹسٹ، محقق اور تھنک ٹینک کے ریسرچ ہیڈ ڈاکٹر اسامہ احسان خان نے کہا ہے کہ اس طرح ایسے اتھارٹی وقت کی انتہائی اہم ضرورت تھی، جس پر حکومت پاکستان نے آخرکار عمل شروع کر دیا۔ 

21 مئی 2025 (بدھ) کو پاکستان کی وفاقی وزارت خزانہ نے ملک میں غیر رسمی کرپٹو مارکیٹ کو ریگولیٹ اور عالمی سرمایہ کاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ 

وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی یعنی پی پی ڈی اے کا مقصد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے معیار کے مطابق معاشی شمولیت اور ڈیجیٹل اثاثوں کو ذمہ داری سے اپنانا ہے۔

اعلامیے کے مطابق پی پی ڈی اے عالمی اور مقامی سرمایہ کاروں کو قانونی وضاحت فراہم کرنے کے ساتھ صارفین کا تحفظ کرے گا۔ یہ قدم پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل معیشت میں ایک مسابقتی کھلاڑی بننے کی جانب لے جائے گا۔ اتھارٹی سے 25 ارب ڈالر سے زائد کی غیر رسمی کرپٹو مارکیٹ کو ریگولیٹ کرنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔

ڈاکٹر اسامہ احسان خان کا کہنا تھا کہ حکومت نے آخرکار یہ سمجھ ہی لیا کہ ایک اتھارٹی ہو جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر کرپٹو کرنسی کی سرگرمی پر نظر رکھنے کے علاقہ قانونی ظابطہ بھی رکھ سکے۔ 

دسمبر 2021 میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی)  کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان نے 2021 میں تقریباً 20 ارب ڈالر کی کرپٹو کرنسی کی قدر ریکارڈ کی، جو ملک کے موجودہ وفاقی ذخائر سے زائد ہے۔ پاکستان 2020-21 کے دوران کرپٹو کرنسی اپنانے کے انڈیکس میں انڈیا اور ویتنام کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔

ڈاکٹر اسامہ احسان خان ایف پی سی سی آئی کی رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر اسامہ احسان خان نے کہا: ’2021 میں پاکستان میں کرپٹو کرنسی میں تقریباً 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی جو 2023 میں ایف پی سی سی آئی کی رپورٹ کے مطابق 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی، جسے حکومت نے اب باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔‘

ڈاکٹر اسامہ احسان خان مے افسوس کا اظہار کیا کہ اتنی بڑی مارکیٹ ہونے کے باوجود اس کو ریگیولر کرنے کے لیے پاکستان میں اب تک کوئی قانونی باڈی موجود نہیں تھی۔ 

انہوں نے کہا کہ ایسا کرنے سے عالمی مالیاتی ادارے پاکستان پر اعتماد کریں گے کہ پاکستان نے اپنے ڈیجیٹل اثاثوں کو منی لانڈرنگ سمیت مختلف خطرات سے بچا لیا ہے۔ 

'کیوں کہ اس اتھارٹی کے قیام کے بعد رولز اینڈ ریگیولیشن بنائے جائیں گے، جن کے باعث کرپٹو کرنسیز سمیت ڈجیٹل اثاثہ جات کے منی لانڈرنگ یا شدت پسندی کی معاونت سمیت غیر قانونی استعال کو روکا جا سکے گا۔‘

پاکستان ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی کی موجودگی میں کون سے کرپٹو یا بلاک چین منصوبے اب قانونی دائرے میں کام کر سکیں گے؟ کے جواب میں ڈاکٹر اسامہ احسان خان نے کہا کہ اس اتھارٹی کے تحت کرپٹو یا بلاک چین منصوبوں کو قانونی دائرے میں لایا جا سکے گا۔ 

بقول ڈاکٹر اسامہ احسان خان: ’کرپٹو ایکسچینج جیسے بائینانس یا کوائن ہیں، ان کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے۔ 

’اس کے علاوہ ڈیجیٹل یا کرپٹو والاٹس جیسے ماروتی وغیرہ جب قانونی دائرے میں آجائیں گے، جس کے باعث فری لانسرز جنہیں باہر سے رقوم منگوانے میں مشکلات ہیں، کو آسانی ہو گی۔‘

ڈاکٹر اسامہ احسان خان کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بینادی شرائط میں منی لانڈرنگ، شدت پسندی کے لیے رقوم کی منتقلی، ٹرانسفر مانیٹرنگ اور لائسنسنگ وغیرہ پر عمل درآمد لازمی ہے۔ 

’پاکستان سے پہلے جن ممالک نے کرپٹو کو قانونی شکل دی اور عوام کو کرپٹو میں سرمایہ کاری کرنے کے اجازت دی انہوں نے سب پہلے اپنے انٹی منی لانڈرنگ (اے ایم ایل) اور کاؤنٹر ٹیررازم فنائنسنگ (سی ٹی ایف) قوانین کو مظبوظ بنایا۔

’اس طرح پاکستان کو پہلے اپنے اے ایم ایل اور سی ٹی ایف قوانین کو مظبوط بنانا ہو گا۔‘

قومی اثاثوں یا قرضوں کی ٹوکنائزیشن کے فوائد اور نقصانات

ڈاکٹر اسامہ احسان خان نے کہا قومی اثاثوں یا قرضوں کی ٹوکنائزیشن سے نقد پذیر اثاثے یا لیکویڈیٹی میں اضافے کے ساتھ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے ساتھ قومی اثاثوں یا قرضوں کی ٹوکنائزیشن کرنے کے کچھ چیلینجز بھی ہیں۔ جیسے سائبر سکیورٹی کے مسائل یا ہیکنگ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ 

’اس لیے پہلے مرحلے میں قومی اثاثوں یا قرضوں کی ٹوکنائزیشن نہ کی جائے بلکہ جب تمام پہلو کامیاب ہوجائیں اس کے بعد ہی ایسا کیا جائے۔ 

کیا پاکستان میں کرپٹو سے متعلق سٹارٹ اپس اور سرمایہ کاروں کے لیے یہ نیا ماحول سازگار ثابت ہو گا؟ یا خدشہ ہے کہ بہت زیادہ ریگولیشن ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گی؟

ان سوالات کے جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر اسامہ احسان خان کا کہنا تھا کہ ماضی میں الیکٹرک گاڑیوں سمیت مختلف شعبہ جات میں عالمی اور مقامی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کے حکومت کو اس شعبے کے لیے بھی پالیسی لانا ہو گی۔ 

بقول ڈاکٹر اسامہ احسان خان: ’اس سیکٹر میں پہلے سے بہت زیادہ لوگ سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور انتظار کر رہے تھے کہ یہ مارکیٹ ملک میں قانونی ہو جائے۔ 

’اگر پالیسی آسان اور بہتر رکھی تو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سرمایہ کار بھی اس سیکٹر میں بڑی تعداد میں آسکتے ہیں۔ جہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کے باعث حکومت کو زیادہ ٹیکسز موصول ہوں گے۔‘

کیا حکومت نے کرپٹو کرنسی یا دیگر ڈیجیٹل اثاثوں کو قانونی طور پر تسلیم کر لیا ہے؟ کیا حکومت قومی اثاثوں یا سرکاری قرضوں کی ٹوکنائزیشن کا ارادہ رکھتی ہے؟ ڈیجیٹل اثاثے منی لانڈرنگ یا دیگر جرائم میں استعمال کے متعلق کوئی رسک اسسمنٹ کی گئی ہے؟ 

اس سلسلے میں وفاقی وزارت خزانہ کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو وفاقی وزیر خزانہ کے ایڈوائیزر خرم شہزاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’ان تمام سوالات کا جائزہ لینے کے لیے یہ ارٹھارٹی قائم کی گئی ہے۔ جو مکمل جائزہ لے کر تجاویز دے گی، جس پر عمل کرتے ہوئے مزید لائح عمل بنایا جائے گا۔

’فی الحال یہ شروعات ہیں۔ اتھارٹی کا قیام ہو جائے، جو تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔‘

سٹیٹ بینک آف پاکستان کا، جو کرپٹو کرنسیز کی مخالفت کرتا رہا ہے، اس اتھارٹی کے قیام کے بعد مؤقف کیا ہو گا؟  

اس سلسلے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان ڈیجیٹل اثاثہ جات اتھارٹی سے سٹیٹ بینک کا کوئی سروکار نہیں اور اس مقصد کے لیے مرکزی بینک سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔

’یہ اتھارٹی وفاقی وزارت خزانہ کی جانب سے قائم کی جارہی ہے، اس پر سٹیٹ بینک کوئی بھی تبصرہ نہیں کرسکتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت