پاکستان، انڈیا سرحد پر فوج میں کمی لا رہے ہیں: سینیئر پاکستانی جنرل

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کہا کہ کشیدگی کے بعد پاکستان اور انڈیا سرحد پر افواج کی کمی کی 22 اپریل سے پہلے والی صورت حال پر واپس آنے والے ہیں۔

پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے جمعے کو کہا ہے کہ حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان اور انڈیا 22 اپریل یعنی پہلگام واقعے سے پہلے کی صورت حال پر تقریباً واپس آنے والے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے انٹرویو میں پاکستان کے اعلی ترین فوجی افسران میں سے ایک جنرل شمشاد مرزا نے کہا کہ دونوں ممالک سرحد پر افواج میں کمی لا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہماری کشیدگی متنازع علاقے تک محدود رہتی تھی لیکن اب بین الاقوامی سرحد تک پہنچ گئی ہے۔ اب مستقبل میں یہ متنازع علاقے تک محدود نہیں رہے گی، پورے پاکستان اور انڈیا تک پھیل جائے گی۔‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پہلگام کے مقام پر 22 اپریل 2025 کو عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا تھا۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر جان لیوا حملے بھی کیے اور مالی نقصان بھی پہنچایا۔

امریکہ کی مداخلت سے دونوں کے درمیان 10 مئی 2025 کو فائر بندی ہوئی تھی جو اب تک برقرار ہے۔ فائر بندی کے دوران دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر فائر بندی کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات بھی عائد کیے تھے اور دونوں ممالک ان الزامات کو مسترد بھی کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جنرل مرزا نے اس غیرمعمولی انٹرویو میں کہا کہ حالیہ کشیدگی میں شہروں پر پہلے حملہ ہوا تھا اور سرحدوں پر بعد میں حملے ہوئے۔

’یہ ایک خطرناک رجحان ہے اور یہ سرمایہ کاری، تجارت اور 1.5 ارب کی آبادی کی صلاحیتوں پر اثر انداز ہو گا۔‘

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے کہا کہ پاکستان نے پہلگام معاملے کی غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات کی پیشکش کی تھی تاکہ سچ سامنے آ سکے مگر انڈیا نے اس پر مثبت ردعمل دینے کے بجائے جارحانہ اقدامات کو ترجیح دی۔

انہوں نے کہا کہ اس بار کشیدگی کم کرنے والے میکنزم موجود نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سوائے ایک ڈی جی ایم او ہاٹ لائن کے، اور انڈیا کے غیر ذمہ درانہ رویے کے باعث عالمی دنیا کے اس معاملے میں کسی کمی لانے کی کوشش میں بہت کم وقت میسر ہو گا۔‘

’ایک ڈی جی ایم او (ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز) کی ہاٹ لائن کے علاوہ بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار موجود ہیں لیکن وہ مکمل طور پر دستیاب نہیں تھے۔ اس لیے بحران سے نمٹنے کا کوئی طریقہ کار نہ ہونے کی صورت میں اور دوسری طرف لاپرواہی سے کام لینے کی صورت میں، بین الاقوامی برادری کے لیے مداخلت کا وقت بہت کم ہو جائے گا۔ اور میں کہوں گا کہ ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی برادی کے اس وقت سے فائدہ اٹھائے سے پہلے ہی نقصان اور تباہی پھیل جائے۔‘

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے پہلی بار سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا گیا، جو کہ ایک انتہائی تشویشناک اور غیر ذمہ دارانہ قدم ہے۔

پاکستان کے شہری علاقوں پر عوامی املاک پر فضائی حملے کرنے کے انڈین اقدام پر بات کرتے ہوئے پاکستان فوجی جرنیل کا کہنا تھا کہ ’یہ فیصلہ پہلگام حملے کے صرف 24 گھنٹے کے اندر بغیر کسی ثبوت کے کیا گیا۔‘

پہلگام واقعے کے بعد نئی دہلی نے اسلام آباد کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ اس حملے میں 26 انڈین شہری جان سے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر ہندو سیاح تھے۔

1960 میں عالمی بینک کی نگرانی میں طے پانے والا یہ معاہدہ معطل کرنا ان متعدد اقدامات میں شامل تھا جو انڈیا نے پہلگام حملے کے بعد پاکستان کے خلاف کیے تھے کیونکہ اس حملے کا الزام انڈیا نے پاکستان پر عائد کیا تھا، جس کی پاکستان نے تردید کی تھی۔

اس حملے کے الزام اور تردید کے بعد جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک گذشتہ تین دہائیوں کی شدید ترین فوجی جھڑپوں میں مصروف ہو گئے، تاہم 10 مئی کو امریکی ثالثی کے بعد دونوں نے جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔

اس سے قبل 22 مئی کو جے شنکر نے ڈچ خبر رساں ادارے این او ایس سے گفتگو میں کہا کہ ’اس وقت کوئی فائرنگ کا تبادلہ نہیں ہو رہا اور فوجی دستوں کی کچھ ازسر نو پوزیشننگ بھی ہوئی ہے۔‘

پہلگام حملے کے بعد چھ اور سات مئی کی درمیانی شب انڈیا کے حملے کے سبب پاکستان کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں بنیادی طور پر دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی فوجی تنصیبات اور ایئر بیسز کو نشانہ بنایا۔  

پاکستان نے اس لڑائی کے دوران انڈیا کے تین فرانسیسی رفال لڑاکا طیاروں سمیت چھ جنگی طیارے مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا