جنوبی ایشیا میں حالیہ تشویش ناک کشیدگی مجھے چند سال پیچھے لے گئی، جب میں امریکہ کے ایک گریجویٹ سکول میں بین الاقوامی تعلقات پر ایک لیکچر میں موجود تھا۔
لیکچر دینے والے پروفیسر جو کہ ایک سخت گیر نظریات رکھنے والے سٹریوسین تھے، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی ایک ’احتیاطی جنگ‘ کی افادیت پر پُرجوش انداز میں دلائل دے رہے تھے۔
احتیاطی جنگیں، خدشے کے تحت لڑی جانے والی جنگوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ وہ مسلح تنازعات ہوتے ہیں جنہیں اس یقین کے تحت شروع کیا جاتا ہے کہ اگرچہ جنگ فوری طور پر ناگزیر نہیں، لیکن یقینی ہے اور کسی بھی تاخیر سے خطرات میں اضافہ ہو گا۔
فوجی کارروائی کے حق میں دلائل دیتے ہوئے پروفیسر ایک گیم تھیوری ماڈل ’چکن کا کھیل‘ پر انحصار کر رہے تھے۔
اس کھیل میں دو ڈرائیور ایک دوسرے کی جانب تیز رفتاری سے آ رہے ہوتے ہیں اور دونوں میں سے کسی ایک کو ٹکر سے بچنے کے لیے ہٹنا ہوتا ہے۔
اگر دونوں نہ ہٹیں تو دونوں مر سکتے ہیں لیکن اگر ایک ڈرائیور راستہ بدل لے اور دوسرا نہ بدلے، تو راستہ بدلنے والے کو کہا جاتا ہے کہ اُس نے ’ڈر کے پیچھے ہٹنے‘ کا مظاہرہ کیا اور اُسے بزدل کہا جاتا ہے۔
اس کھیل کو بڑی حد تک جوہری جنگ میں ’یقینی باہمی تباہی‘ کا تجزیہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے، خاص طور پر اس خطرناک حد تک پہنچ جانے والی کشمکش میں جو ’کیوبن میزائل بحران‘ کے دوران دیکھی گئی۔
بعض تجزیہ کاروں نے اس کھیل کو جنوبی ایشیا میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔
تاہم گیم تھیوری میں تمام کرداروں۔۔۔ اس مثال میں ڈرائیورز ۔۔۔۔ کو ہمیشہ مکمل عقل مند تصور کیا جاتا ہے۔
یہ مفروضہ جو مائیکرو فاؤنڈیشنز کا حصہ ہے، نیوکلاسیکل اکنامکس، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں بھی پایا جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، گیم تھیوری میں مکمل عقلیت کا بنیادی مفروضہ مسلح تنازعے کا تجزیہ کرنے میں ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر ’چکن‘ کے کھیل میں پورا منظرنامہ اس مفروضے پر مبنی ہوتا ہے کہ چونکہ دونوں کھلاڑی مکمل طور پر عقلمند ہیں، اس لیے وہ تباہی نہیں چاہتے، یعنی غالب امکان یہی ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک یا دونوں تباہی سے بچنے کے لیے راستہ بدل لیں گے۔
اور اگر ایسا نہ ہو اور دونوں راستہ نہ بدلیں اور تباہی ہو جائے، تو اس کی وضاحت مخالف کی نیت کے بارے میں غلط اندازے سے کی جاتی ہے، تاکہ مکمل عقلیت کے مفروضے کو برقرار رکھا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سی تحقیق اس مفروضے کو غلط ثابت کرتی ہے کہ انسان مکمل طور پر عقلمند ہوتے ہیں۔
ہربرٹ سائمن نے گیم تھیوری میں پیش کیے جانے والے مکمل عقلیت کے مثالی حالات کو مسترد کیا۔ اس کی جگہ سائمن نے ’محدود عقل‘ کا تصور پیش کیا، جس کا مطلب ہے کہ انسان صرف اتنے ہی عقلمند ہو سکتے ہیں جتنا کہ ان کی ذہنی صلاحیتیں اجازت دیتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی فرد کا ذہنی ماڈل ہی ناقص ہو، تو وہ فرد صرف اسی ناقص ذہنی ماڈل کی حدود میں رہتے ہوئے عقلمند کہلا سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ڈرائیور یہ یقین رکھتا ہے کہ اس کی گاڑی دوسری گاڑیوں کے اوپر سے چھلانگ لگا سکتی ہے، تو وہ دوسرے ڈرائیور کی طرف بغیر ڈرے سیدھا گاڑی دوڑانے کو ’عقلمندانہ‘ فیصلہ سمجھے گا، اور اس صورت میں تباہی کا خطرہ بہت زیادہ ہوگا۔
یہ حقیقی دنیا کے لیے ایک نہایت خطرناک منظرنامہ ہے۔ اگر کوئی ملک ’گیم آف چکن‘ جیسے ماڈل پر انحصار کرتے ہوئے اپنے مخالف کے خلاف عسکری کارروائی کرے یعنی یہ مفروضہ بنا کر کہ مخالف مکمل طور پر عقلمند ہے اور تباہی سے بچنا چاہتا ہے تو حقیقت میں وہ مخالف اپنے ذہنی ماڈل کے اندر رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہو سکتا ہے۔
تعمیریت پسندی، جو بین الاقوامی تعلقات کا ایک مکتبِ فکر ہے، شاید زیادہ مؤثر نقطہ نظر ہو، کیونکہ یہ دنیا اور علم کو سماجی طور پر تشکیل شدہ تصور کرتا ہے۔
الیگزینڈر وینٹ نے اس تصور کو اس طرح واضح کیا ہے کہ 500 برطانوی جوہری ہتھیار امریکہ کے لیے اتنے خطرناک محسوس نہیں ہوتے جتنے کہ شمالی کوریا کے صرف پانچ ہتھیار، کیونکہ فرق مادی ساخت میں نہیں بلکہ خیالات اور دی گئی معنویت میں ہوتا ہے۔ جوہری ہتھیار بذاتِ خود کوئی معنی نہیں رکھتے جب تک ان کا کوئی سماجی سیاق و سباق نہ ہو۔
تعمیراتی مفکرین خیالات اور اعتقادات کو اہمیت دیتے ہیں، اور یہ دکھاتے ہیں کہ حقیقت ایک سیال چیز ہے، جس کے معانی وقت، حالات، اور مختلف کرداروں کے نقطہ نظر اور عمل کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔
دو جوہری ریاستوں کے درمیان تنازعے کا تجزیہ اتنا سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے صرف گیم تھیوری کے ماہرین پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
جیسے ہی جنوبی ایشیا میں حالیہ کشیدگی بڑھی، کئی عالمی طاقتیں اس میں مداخلت کے لیے متحرک ہو گئیں۔ سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ امور نے نئی دہلی اور اسلام آباد دونوں کا دورہ کیا، جبکہ امریکی حکام نے بھی دونوں ممالک کی قیادت سے رابطے کر کے کشیدگی کم کرنے اور جنگ بندی کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔
دی گئی صورت حال کی سنگینی دیکھتے ہوئے، بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور انڈیا کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بھرپور کوشش کرے۔ سب کچھ کہنے اور کرنے کے بعد، گیم تھیوری کی محدودات اور انڈین میڈیا کے بڑھتے ہوئے جارحانہ رویے کے تناظر میں، تعمیراتی نقطہ نظر شاید مستقبل میں انڈیا پاکستان تعلقات کو سمجھنے کے لیے سب سے موزوں زاویہ ہو۔
(بشکریہ عرب نیوز)
کالم نگار نے حال ہی میں فل برائٹ سکالرشپ پر معیشت میں پی ایچ ڈی کی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔