جامعات پر ٹرمپ کی قدغنیں، دیگر ملکوں کے لیے دروازے کھل گئے

ٹرمپ کے اقدام کے بعد اب کئی ممالک کے درمیان مقابلہ سخت ہے کیوں کہ چین پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ ان طلبہ کو خوش آمدید کہے گا جنہیں امریکہ میں داخلہ نہیں مل رہا۔

29 مئی 2025 کو ہارورڈ یونیورسٹی میں گریجوشن کرنے والے طلبہ کا گروپ (اے ایف پی)

نوجوانوں کے کشتی رانی کے گذشتہ سال مقابلے یعنی نیشنل سکولز ریگاٹا میں سب سے لمبی قطار امریکی یونیورسٹیوں کے سٹالز کے باہر تھی۔

یہ مقابلہ ایٹن کالج کی ڈورنی لیک کے پانیوں میں ہوتا ہے اور اس میں زیادہ تر نجی سکولوں کے طلبہ شامل ہوتے ہیں۔ اس میں طلبہ کے والدین، دادا دادی، رشتہ دار اور دوست احباب بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ دھاری دار کوٹ اور سکولوں کے لوگو ہر جگہ نمایاں نظر آتے ہیں۔

پانی پر ہونے والی ریس سخت اور دلچسپ ہوتی ہے لیکن حاضرین کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو کسی بہترین امریکی یونیورسٹی میں داخل کروانے کے زیادہ خواہش مند نظر آتے ہیں، چاہے کھیل کے ذریعے یا کسی اور ذریعے۔

جیسے جیسے آکسفورڈ اور کیمبرج نے حالیہ برسوں میں نجی سکولوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے دروازے محدود کیے ہیں، ویسے ویسے ان کی توجہ بحرِ اوقیانوس کے پار امریکہ کی جانب منتقل ہوتی گئی۔

 آج کل ہر نجی سکول میں کوئی نہ کوئی ایسا ماہر ضرور ہوتا ہے جو بتا سکے کہ کون سی امریکی یونیورسٹی بہتر ہے اور اس میں داخلے کا عمل کس طرح مکمل کیا جائے۔

ایسی نمائشیں بھی منعقد کی جاتی ہیں جہاں یونیورسٹیاں خود کو پروموٹ کرتی ہیں اور ان کے نمائندے والدین کو متاثر کرنے کے لیے ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔

اسی لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی جامعات پر حالیہ حملے نے، چاہے وہ عارضی ہی کیوں نہ ہو، سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

رواں ہفتے کے آغاز میں امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے ہارورڈ یونیورسٹی کی غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے کی اہلیت ختم کرنے کا اقدام اٹھایا یعنی ان کی ویزا درخواستوں کو روک دیا گیا۔ بظاہر اس کا مقصد یونیورسٹیوں میں موجود مبینہ ’آزاد خیال‘ نظریات کے حامل افراد کا خاتمہ ہے۔

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ وہ ہارورڈ کے لیے وفاقی حکومتی معاہدوں میں مزید کمی کریں گے۔ یہ وہی یونیورسٹی ہے جہاں حال ہی میں فلسطین کے حق میں بڑے احتجاجات ہوئے تھے۔

کم از کم صدر نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ مستقبل میں افراتفری اور غیر یقینی حالات پیدا ہوں گے۔ ایسے میں جب برطانیہ کے خوشحال خاندانوں نے امریکہ میں آکسفورڈ اور کیمبرج کا ایک متبادل ڈھونڈ لیا تھا، اب وہ راستہ بھی مشکوک ہو گیا ہے۔

لیکن اسی کے ساتھ ٹرمپ کا یہ کریک ڈاؤن برطانوی اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ آگے بڑھ کر یہ خلا پُر کرے۔ برطانیہ کے نجی اور چند منتخب ریاستی سکولوں کی تنگ نظر اشرافیہ پسندی میں آکسفورڈ اور کیمبرج کے بعد صرف چند جامعات جیسے ڈرہم، سینٹ اینڈریوز، ایڈنبرا اور بعض لندن کی جامعات کو ہی قابل توجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد والدین، اساتذہ اور افسوس کے ساتھ طلبہ بلکہ نوکریاں دینے والے بھی باقی یونیورسٹیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔

رسل گروپ کی جامعات، جو خود کو آکسفورڈ اور کیمبرج کے بعد سب سے اعلیٰ تصور کرتی ہیں، واقعی بہت سوں کے لیے صرف دوسرے درجے کی ہی حیثیت رکھتی ہیں۔ باقی یونیورسٹیاں تو شاید گنتی میں ہی نہ آئیں۔

2023-24 میں امریکہ نے 11 لاکھ بین الاقوامی طلبہ کو داخلہ دیا جن میں سے 10 ہزار کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ یہ طلبہ امریکی معیشت کو ٹیوشن، رہائش اور دیگر اخراجات کی صورت میں 43.8 ارب ڈالر فراہم کرتے ہیں۔ یہ صرف مالی نقصان نہیں بلکہ برطانیہ کے لیے ذہانت اور صلاحیتوں کا بھی نقصان ہے جو کبھی وطن واپس نہیں آتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی جامعات کے لیے یہ شعبہ اب کاروبار بن چکا ہے اور وہ بھی ایک منافع بخش کاروبار۔ یہ برطانیہ کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنی تعلیم کو ازسرنو پرکشش بنائے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب غیر ملکی طلبہ اور ان کی فیسیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔

اب مقابلہ سخت ہے کیوں کہ چین پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ ان طلبہ کو خوش آمدید کہے گا، جنہیں امریکہ میں داخلہ نہیں مل رہا۔

یہ بھی سچ ہے کہ برطانیہ کی جامعات خود بھی اس زوال کی ذمہ دار ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں ان کا دائرہ بہت تیزی سے پھیلا ہے اور کچھ ادارے اور ان کے کورسز معیار پر پورا نہیں اترتے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس تعصب کو بھی نہیں بھولنا چاہیے، جو ان اداروں کے خلاف کام کرتا ہے۔

اس صورت حال میں برطانوی حکومت کی جانب سے جامعات کو مالی کٹوتیوں کا نشانہ بنایا جانا بھی نقصان دہ ہے۔ تعلیم کا یہ شعبہ پہلے ہی شدید دباؤ، کمزوری اور حوصلہ شکنی کا شکار ہے۔ اگر اسے امریکی صدر کے جارحانہ اقدامات کے باعث اچانک پیدا ہونے والے اس موقعے سے فائدہ اٹھانا ہے تو ضروری ہے کہ حکومت اس شعبے کو اعتماد اور مالی تعاون فراہم کرے۔

یہ ایک باہمی شراکت ہونی چاہیے، جو برطانیہ کے مفاد میں ہو اور طلبہ کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے کام کرے کیوں کہ اس کا فائدہ معیشت کو بھی ہو گا۔ یہ قومی مفاد میں ہو گا کہ طلبہ یہیں رہیں، تعلیم مکمل کریں اور یہاں اپنا کیریئر شروع کریں۔

اگرچہ کچھ حلقوں میں اس پر افسوس ہو گا، اس پر آنسو بہائے جائیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک دروازہ بند کر کے ٹرمپ نے دوسرا دروازہ کھول دیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر