وزارتِ خارجہ کے ذرائع نے جمعرات کی شام کو کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے تاحال شملہ معاہدے کو معطل کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
وزارت خارجہ کے سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انڈیا کے ساتھ کوئی بھی دوطرفہ معاہدہ ختم کرنے کا کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں ہوا۔
اس سے قبل اس کے برعکس وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ شملہ معاہدے کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی اور لائن آف کنٹرول اب جنگ بندی لائن ہو چکی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم 1948 کی پوزیشن پر واپس آگئے ہیں، انڈیا کے اقدامات کی وجہ سے شملہ معاہدے کی شقیں ختم ہو گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ’سندھ طاس معاہدے میں کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی پارٹی یکطرفہ طور پر یعنی انفرادی طور پر اس معاہدے سے نہیں نکل سکتی۔ اس معاہدے سے متعلق تمام اقدامات مشترکہ طور پر لیے جا سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’تو اگر یہ بات ہے، اس قسم کی (بات) ہندوستان نے شروع کی ہوئی ہے تو شملہ معاہدہ دو (ملکوں) کے درمیان ہے اس میں کوئی ورلڈ بینک نہیں ہے، کسی کی مداخلت نہیں ہے، تو پھر کنٹرول لائن سیز فائر لائن میں منتقل ہو جائے گی، جو اس کا اوریجنل سٹیٹس تھا۔‘
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ شملہ معاہدے کی سینکٹٹی (تقدس) ختم ہو گئی ہے۔۔۔ اس جنگ کے بعد اس معاہدے کی کوئی وقعت یا قدروقیمت باقی نہیں رہی۔‘
پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1971 کی جنگ کے بعد انڈیا کے سیاحتی مقام شملہ میں 1972 میں معاہدہ ہوا تھا، جس پر پاکستانی وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو اور انڈین وزیرِ اعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ پاکستان اور انڈیا کشمیر سمیت تمام مسائل دو طرفہ طریقے سے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اپریل میں پہلگام پر حملے کے بعد انڈیا نے اس کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یک طرفہ طور پر سندھ طاس منصوبہ معطل کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ پاکستان کو اس کے جواب میں شملہ معاہدے کو معطل کر دینا چاہیے۔