یہ جون 1972 کے آخری ہفتے کی بات ہے۔ ہمالیہ کے دامن میں برطانوی راج کے سابق گرمائی دارالحکومت شملہ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سربراہ اجلاس کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔
اس چوٹی کے اجلاس کا مقام برطانوی ہند کے کمانڈر ان چیف لیفٹیننٹ جنرل سر ایڈورڈ برنز سے منسوب اور سن 1832 میں تعمیر کی جانے والی عمارت ’برنز کورٹ‘ تھا۔ اب یہ عمارت ہماچل پردیش میں گورنر کی رہائش گاہ ہے اور ’راج نواس‘ یا ’راج بھون‘ کہلاتی ہے۔
1971 کی جنگ میں پاکستان کو ہزیمت آمیز شکست دینے کی وجہ سے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا حوصلہ ساتویں آسمان پر تھا۔ ان کی اپنے ملک میں ہر طرف سے پذیرائی ہو رہی تھی۔ بھارتی اخبارات میں ان کے لیے ’مہا رانی‘ اور ’آئرن لیڈی‘ جیسے القاب کا استعمال ہو رہا تھا۔ حزب اختلاف کے اہم رہنما اٹل بہاری واجپائی انہیں ہندو دیوی ’دُرگا‘ سے تعبیر کر بیٹھے تھے۔
لیکن شملہ کے اس سربراہ اجلاس میں اندرا گاندھی خود کو طاقت کے نشے میں چُور کسی متکبر رہنما یا ایک فاتح ملک کی سربراہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک بہترین مہمان نواز کے طور پر یاد کیے جانے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔
وہ پاکستانی وفد خاص طور پر اس کے قائد اور صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی 19 سالہ بیٹی بے نظیر بھٹو کی میزبانی کو لے کر کافی سرگرم اور پرجوش نظر آ رہی تھیں۔
اندرا گاندھی کی سوانح عمری ’اندرا: دا لائف آف اندرا نہرو گاندھی‘ میں مصنفہ کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ بھارتی وزیراعظم (اندرا گاندھی) راج نواس میں ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بے نظیر کے قیام کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے ایک دن پہلے ہی شملہ پہنچیں۔
’وہ دہلی سے اپنے ساتھ فرنیچر اور دیواروں پر ٹانکنے والی کچھ پینٹنگز بھی لے آئی تھیں۔ انہوں نے پردوں، قالینوں اور فرنیچر کو سلیقے سے ترتیب دینے میں کافی وقت صرف کیا۔‘
بھارتی وفد میں شامل اندرا گاندھی کے پرنسپل سیکریٹری اور مشیر پی این دھر، جو نسلاً کشمیری برہمن تھے، نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’اندرا گاندھی، دا ایمرجنسی اینڈ انڈین ڈیموکریسی‘ میں لکھا ہے کہ انتظامات کا جائزہ لینے کے دوران بھارتی وزیراعظم کو اس وقت شدید غصہ آیا جب انہوں نے بھٹو کے کمرے میں اپنی ایک بڑی تصویر لٹکی ہوئی پائی۔
’اندرا جی نے حکم دیا کہ اسے فوری طور پر ہٹا دیا جائے۔ اس کے بعد انہوں نے باتھ رومز کا جائزہ لیا اور انہیں ہندوستانی طرز کا پا کر اور ان میں میڈ اِن انڈیا اشیا دیکھ کر خوش اور مطمئن ہو گئیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب بھٹو بذات خود دیکھیں کہ بھارتی معیشت شہری ضروریات کو پورا کرنے کے لائق ہے یا نہیں۔‘
شملہ سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی پرکاش چند لوہومی نے اس سربراہ اجلاس کو ہندی اخبار نوبھارت ٹائمز کے لیے رپورٹ کیا ہے۔ ان کی عمر آج 77 سال ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اندرا گاندھی سربراہی اجلاس سے ایک دن نہیں بلکہ دو دن پہلے شملہ آ پہنچیں اور پیشگی آمد کا واحد مقصد انتظامات کو از خود دیکھنا تھا۔
’جس دن بھٹو کی قیادت والے پاکستانی وفد کو چندی گڑھ سے بذریعہ ہیلی کاپٹر شملہ آنا تھا، اس دن موسم بہت خراب تھا۔ وفد کا استقبال کرنے کے لیے اندرا گاندھی خود شملہ کے انن دالے علاقے میں واقع فٹ بال کے میدان میں پہنچیں۔
’موسم کی خرابی کے سبب ہیلی کاپٹر نے قریب چھ گھنٹے کی تاخیر سے لینڈ کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اندرا گاندھی عارضی طور پر کہیں قیام کرنے کی بجائے پورے چھ گھنٹے تک اپنی کار میں بیٹھی انتظار کرتی رہیں۔ ‘
تاہم کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ چہ جائیکہ اندرا گاندھی نے پاکستانی صدر اور ان کی بیٹی (بے نظیر) کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے تھے لیکن جب دونوں رہنما ملے تو ان کے درمیان ان بن واضح طور پر نظر آئی۔
’شملہ کے جس میدان میں بھٹو کا ہیلی کاپٹر اترا وہاں موجود پریس فوٹوگرافرز صرف اتنا ہی کر سکتے تھے کہ دونوں کو اچھے سے ہاتھ ملانے پر مجبور کیا، تاہم اندرا نے بے نظیر بھٹو کا پرتپاک استقبال کیا، جو یہ دیکھ کر حیرت زدہ تھیں کہ بھارتی وزیراعظم کتنی چھوٹی اور خوبصورت ہیں۔‘
بے نظیر بھٹو اپنی خود نوشت ’ڈاٹر آف دا ایسٹ‘ میں اندرا گاندھی سے اپنی پہلی ملاقات کے بارے میں لکھتی ہیں: ’وہ کتنی چھوٹی تھیں۔ ان گنت تصویروں میں جیسا دیکھا تھا بالکل اس کے برعکس۔ اور کتنی خوبصورت۔ انہوں نے ساڑھی کے اوپر رین کوٹ پہن رکھا تھا۔ میں نے السلام علیکم کہا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے نمستے کہا۔‘
پی این دھر لکھتے ہیں کہ کئی گھنٹوں تک بھٹو کا انتظار کرنے والی اندرا گاندھی انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر راج بھون لے آئیں۔
’راستے میں بھٹو نے دیکھا کہ لوگ قطار میں کھڑے ہو کر تالیاں بجا رہے ہیں۔ انہوں نے چونک کر مسز گاندھی کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ کیا یہ لوگ میرا مذاق اڑا رہے ہیں؟ مسز گاندھی نے جواب دیا: نہیں نہیں، یہ لوگ تالیاں بجا کر آپ کا استقبال کر رہے ہیں۔‘
بھارت اور پاکستان مذاکراتی میز پر کیسے آئے؟
1971 کی جنگ میں بھارت کے ہاتھوں شرمناک شکست کی وجہ سے پاکستان میں سخت بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔
یہ ملک مشرقی پاکستان کو بچانے کی ناکام کوششوں کے دوران مغربی پاکستان میں اپنے پانچ ہزار مربع میل اور لگ بھگ 93 ہزار فوجی بھارت کی جھولی میں دے بیٹھا تھا۔ فضائیہ اور بحریہ کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی اور سرکاری خزانہ خالی ہو چکا تھا۔
اس وقت کے مقبول کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ اپنی سوانح حیات ’آتش چنار‘ میں لکھتے ہیں: ’1971 میں بھارت اور پاکستان کی جنگ چھڑ گئی اور نزلہ بر عضو ضعیف کے مترادف کشمیر میں پھر جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔
’لیکن اب کی بار پاکستان کو میدان میں واضح طور پر شکست ہوئی۔ جنرل یحییٰ خان کا پتہ کٹ گیا اور مسٹر بھٹو ایک دیمک خوردہ اور لولے لنگڑے پاکستان کے صدر بنائے گئے۔‘
سری نگر سے شائع ہونے والے اردو اخبار ’آفتاب‘ کے بانی ثنا اللہ بٹ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’کشمیر: 1947 سے 1977 تک‘ میں لکھتے ہیں کہ 20 دسمبر 1971 کو پاکستان میں یحییٰ خان کی جگہ لینے والے بھٹو نے اقتدار سنبھالتے ہی شیخ مجیب الرحمان کو رہا کر دیا اور انہیں لندن کے راستے ڈھاکہ بھیج دیا گیا جہاں وہ بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔
یہ بظاہر عالمی دباؤ کا نتیجہ تھا، جس کی وجہ سے بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے خود ہی پاکستان سے ’امن مذاکرات‘ کی پہل کی۔
’اندرا گاندھی، دا ایمرجنسی اینڈ انڈین ڈیموکریسی‘ کے مصنف پی این دھر لکھتے ہیں کہ دسمبر 1971 میں جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد اندرا گاندھی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو ایک خط لکھا۔
’اس خط میں انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان دیرپا امن کے قیام کے لیے کسی بھی وقت، کسی بھی جگہ اور بغیر کسی پیشگی شرائط کے پاکستان کے ساتھ دو طرفہ بات چیت کرنے کے لیے اپنی رضا مندی ظاہر کی۔
’اس خط کی ایک کاپی سوئٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے ذریعے پاکستان بھجوائی گئی۔ اس اقدام کے بعد انہوں نے پاکستان کو سفارتی سطح کے مذاکرات کی دعوت دی تاکہ سربراہی کانفرنس کے لیے میدان ہموار کیا جائے۔‘
ثنا اللہ بٹ کے مطابق یہ 16 اپریل 1972 کا دن تھا جب اندرا گاندھی نے رسمی طور پر بھٹو کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح پر بات چیت کی تجویز پیش کی۔
’مسٹر بھٹو نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ بات چیت کا ایجنڈا اور دوسرے امور طے کرنے کے لیے مسز گاندھی نے مسٹر ڈی پی دھر کی قیادت میں 16 افسروں کا ایک وفد اسلام آباد بھیجا جس نے مری میں دو دن تک پاکستانی افسروں کے ساتھ بات چیت کے بعد ایجنڈا اور دوسرے امور طے کر لیے۔‘
ڈی پی دھر بھی نسلاً کشمیری برہمن تھے اور اندرا گاندھی کے قریب ترین مشیر، راز دار اور سفارت کار تھے۔
پی این دھر لکھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی طرف سے مقرر کردہ مذاکرات کاروں عزیز احمد (بھٹو کے سیکریٹری برائے خارجہ) اور ڈی پی دھر نے اپریل 1972 کے آخری ہفتے میں مری میں ملاقات کی۔
’تین دنوں کی سخت سودے بازی کے بعد دونوں مذاکرات کاروں نے دو دستاویزات تیار کیں: ایک مجوزہ سربراہی اجلاس کا ایجنڈا اور دوسرا اس کے رہنما اصولوں کا ایک متفقہ سیٹ۔ ‘
ثنا اللہ بٹ لکھتے ہیں کہ ڈی پی دھر ایجنڈا اور دوسرے امور طے کرنے کے بعد چار مئی 1972 کو واپس نئی دہلی آ گئے۔
’مسٹر ڈی پی دھر نے پاکستان سے نئی دہلی واپس آنے پر بتایا کہ انہوں نے دونوں ملکوں کی چوٹی کی کانفرنس کے لیے سری نگر کا مقام تجویز کیا تھا لیکن پاکستان نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کشمیر پر بات چیت کے لیے اصرار کر رہا ہے اور ہم نے اس پر بات چیت کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کر دی ہے۔
’اسلام آباد سے واپسی کے بعد مسٹر ڈی پی دھر اچانک سری نگر آئے اور یہاں سید میر قاسم کے ساتھ طویل بات چیت کی۔ مسٹر دھر سے بات چیت کرنے کے بعد سید میر قاسم نے مجھے ایک ملاقات کے دوران بتایا کہ کشمیر میں تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے، جس میں انہیں یعنی سید میر قاسم کو سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرنا ہو گا۔‘
شملہ میں مذاکرات
28 جون 1972 کو شملہ میں بھارت اور پاکستان کے درمیان سربراہ کانفرنس شروع ہو گئی۔ پاکستانی کور گروپ بھٹو، عزیز احمد اور جنرل ضیا الحق پر مشتمل تھا۔
کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ جنرل ضیا، جو بعد ازاں پاکستان کے صدر بنے، کی وفد میں شمولیت پر پاکستانی فوج نے اصرار کیا تھا۔
’اندرا گاندھی کے وفد میں ان کے پرنسپل ایڈوائزر دھر و پرمیشور نارائن ہکسار اور ان کے خارجہ سکریٹری ترلوکی ناتھ کول – یعنی ان کے ’کشمیری مافیا ‘کی کریم – یہ تمام لوگ ذہین، اصول پسند اور ہوشیار تھے۔ ‘
پی این دھر کی طرح ترلوکی ناتھ کول بمعروف ٹی این کول بھی ایک کشمیری برہمن تھے۔
بے نظیر بھٹو نے لکھا ہے کہ ان کے والد اندرا گاندھی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر خالی ہاتھ آ رہے تھے جبکہ بھارت کے پاس سودے بازی کے تمام کارڈز خاص طور پر ’ہمارے قیدی، جنگی مقدمات کی دھمکی اور ہمارے خطے کے پانچ ہزار مربع میل‘ موجود تھے۔
کیتھرین فرینک نے لکھا ہے کہ مذاکرات کے دوران اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے ایک دوسرے کو کافی سنجیدہ اور گھمبیر پایا۔
’ذاتی عناد کے علاوہ وہ اپنے مقاصد پر بھی ٹکرا گئے۔ اندرا شملہ بیٹھک کو مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے رفع دفع کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھیں۔ بھٹو 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں اور پانچ ہزار مربع میل کی واپسی چاہتے تھے۔
’اندرا وہ تمام علاقے واپس کرنے کے لیے تیار تھیں جو کشمیر کا حصہ نہیں تھے، لیکن ان کا ماننا تھا کہ جنگی قیدیوں کو بنگلہ دیش کی رضامندی کے بغیر رہا نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ وہ ان پر جنگی جرائم کا مقدمہ چلانا چاہتا ہے۔‘
مذاکرات کی ناکامی کا اعلان
پاکستانی اور بھارتی وفود کے درمیان مذاکرات دو جولائی کو پانچویں دن میں داخل ہوئے لیکن ان کے کسی نتیجے پر پہنچنے کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آ رہا تھا۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ میرے والد نے دو جولائی کو مجھ سے کہا: ’پیک اپ۔ ہم کل گھر جا رہے ہیں‘۔ جب میں نے پوچھا ’کسی معاہدے کے بغیر؟‘ تو ان کا جواب تھا ’ہاں۔ میں بھارت کی طرف سے عائد کردہ کسی معاہدے کے بغیر ہی پاکستان واپس جانا پسند کروں گا۔‘
وہ اپنے والد کے حوالے سے لکھتی ہیں: ’بھارتی وفد کا خیال ہے کہ میں بغیر کسی معاہدے کے گھر جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا ان کے مطالبات، جیسے بھی ہوں، تسلیم کر لوں۔ مجھے اپنے ملک کے سودے کی بجائے پاکستان میں ناراضگی کا سامنا کرنا منظور ہے۔‘
بے نظیر بھٹو نے لکھا: ’ہماچل بھون میں تھکے ہوئے وفد پر افسردگی کی کیفیت طاری تھی۔ باقی رہ گئی تھی وہ ملاقات جو میرے والد کو محترمہ گاندھی سے ساڑھے چار بجے کرنی تھی اور وہ عشائیہ جس کی میزبانی ہمارا وفد کر رہا تھا۔ پھر ہمیں اسلام آباد واپس روانہ ہونا تھا۔‘
کیتھرین فرینک نے اندرا گاندھی کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ دو جولائی کی دوپہر کو دونوں وفود کی آخری بیٹھک کے بعد بھارتی وزیر خارجہ ٹی این کول صحافیوں سے ملنے باہر آئے اور انہیں مایوسی کے ساتھ بتایا کہ مذاکرات بے معنی ثابت ہوئے ہیں۔
’صحافی اس غیر معمولی اجلاس کی ناکامی کا اعلان کرنے کے لیے اپنے نیوز رومز کی طرف بھاگ پڑے۔ ٹی این کول اس یقین کے ساتھ اپنے بستے باندھ کر دہلی کے لیے روانہ ہو گئے کہ اب کوئی حل نکلے گا نہ کوئی معاہدہ ہو گا۔‘
بھٹو اور اندرا میں خفیہ گفتگو
پی این دھر نے لکھا ہے کہ دو جولائی کی اداسی کے درمیان بھٹو نے اندرا گاندھی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، جس کے بعد شام چھ بجے ’ریٹریٹ‘، جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھیں، میں ایک میٹنگ طے پائی۔
’جب بھٹو مسز گاندھی سے ملنے آئے تو انہوں نے پی این ہکسار اور مجھ سے مختصر گفتگو کی اور کہا کہ آپ افسر لوگ بڑی آسانی سے ہار مان لیتے ہو۔
’بھٹو اور مسز گاندھی کی میٹنگ ایک گھنٹے تک چلی جبکہ ہکسار اور میں بغل والے کمرے میں انتظار کر رہے تھے۔ مسز گاندھی کے ساتھ خفیہ گفتگو کے بعد بھٹو نے ہماری طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا کہ ہم نے معاملہ طے کر لیا ہے اور رات کے کھانے سے پہلے آپ کو کچھ کام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
بے نظیر بھٹو نے اس ایپی سوڈ کے بارے میں لکھا ہے کہ میں اپنے بیڈروم کے فرش پر بیٹھی تھی کہ اچانک میرے والد دروازے پر نمودار ہوئے اور آنکھوں میں ایک نئی چمک کے ساتھ کہنے لگے: ’کسی کو بتانا نہیں۔ میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ لیکن اگر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو مایوس نہ ہوں۔‘
وہ لکھتی ہیں کہ یہ کہہ کر بھٹو چلے گئے اور جب واپس آئے تو بڑی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے کہ ’امید لوٹ آئی ہے۔ ہم انشااللہ معاہدہ کر لیں گے۔‘
’جب میں نے پوچھا کہ آپ نے مسز گاندھی کو معاہدے پر کیسے راضی کیا تو ان کا جواب تھا کہ وہ ملاقات کے دوران الجھی ہوئی نظر آئیں۔ آخر کار (مذاکرات ناکام ہوئے تو) ہار دونوں کی ہو گی۔ ہمارے سیاسی مخالفین اسے ہمارے خلاف استعمال کریں گے۔‘
دھر لکھتے ہیں کہ بھٹو کو رخصت کرنے کے بعد اندرا گاندھی نے انہیں اور پی این ہکسار کو اس خفیہ گفتگو کی تفصیلات فراہم کیں۔
’میٹنگ کے دوران مسز گاندھی نے بھٹو سے کہا کہ وہ ان کے تحفظات کے تئیں ہمدردی رکھتی ہیں اور یہ کہ وہ ایک شکست خوردہ مخالف کو شرائط ڈکٹیٹ کرنا پسند نہیں کریں گی۔
’مسز گاندھی نے معاہدے کے مفاد میں مقبوضہ علاقوں سے جلد از جلد فوجیوں کے انخلا پر اتفاق کیا۔ اس معاملے پر بھارت کو بنگلہ دیش کی رضامندی کی ضرورت نہیں تھی جیسا کہ اسے بھارت – بنگلہ دیش مشترکہ کمان کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے جنگی قیدیوں کی واپسی کے معاملے پر ضرورت تھی۔
’اس کے ساتھ ہی انہوں نے برصغیر میں پائیدار امن اور استحکام کی بھارتی خواہش کا مضبوطی سے اعادہ کیا، جو ان کے نزدیک اقتصادی اور سماجی ترقی اور غربت کے خاتمے جیسے مشترکہ اہداف کے لیے پیشگی شرط تھی۔ یہ مشترکہ اہداف بھٹو کی اپنے ملک میں کی جانے والی تقریروں کا محور بن گئے تھے۔‘
بے نظیر بھٹو نے اس خفیہ گفتگو کی تفصیلات کچھ یوں تحریر کی ہیں: ’میرے والد نے محترمہ گاندھی سے کہا تھا کہ ہم دونوں جمہوری رہنما ہیں جن کو اپنے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ ہم یہاں سے خطے کو دائمی امن کی طرف لے جا سکتے ہیں جو تقسیم کے بعد سے اس سے محروم ہے یا ناکام ہو کر پہلے سے موجود زخموں کو مزید گہرا کر سکتے ہیں۔
’فوجی فتوحات تاریخ کا حصہ ہیں لیکن یہ سٹیٹس مین شپ ہے، جو اس میں پائیدار جگہ تلاش کرتا ہے۔ سٹیٹس مین شپ کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنے اور موجودہ وقت میں رعایتیں دینے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے ثمرات وہ مستقبل میں حاصل کریں گے۔ فاتح کے طور پر یہ بھارت ہے، پاکستان نہیں جسے امن کے انعام کے لیے یہ رعایتیں دینی چاہییں۔‘
بے نظیر نے لکھا ہے کہ جب میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ ’کیا مسز گاندھی مان گئی ہیں‘ تو ان کا جواب تھا: ’وہ متفق نہیں ہوئیں‘ اور سگار جلاتے ہوئے کہا کہ ’وہ اپنے ذاتی مشیروں سے مشورہ کریں گی اور آج رات کے کھانے پر ہمیں بتائیں گی۔‘
اور بھٹو جیت گئے
صحافی پرکاش چند لوہومی کی نظر میں شملہ مذاکرات میں بھٹو کا اچانک بازی مار کر اپنے تمام مطالبات منوانا تحقیق طلب ہے۔
’بالآخر دو جولائی کو رات کے آٹھ بجے جب بھٹو نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں تو زیادہ تر صحافی وہاں سے چلے گئے۔ اچانک رات کے قریب ساڑھے 10 بجے چہ مگوئیاں شروع ہوئیں کہ معاہدہ طے پایا ہے جس پر اسی رات دستخط ہوں گے۔
’میں وہیں رکا تھا۔ کچھ دیر میں راج بھون کا ڈرائنگ روم بھر گیا۔ بھٹو پہلے سے ہی تشریف آور تھے اور کچھ دیر بعد اندرا گاندھی بھی آئیں۔
’چوں کہ سب کچھ عجلت میں ہوا تو کوئی انتظامات ہی نہیں تھے۔ میز پر کپڑا نہیں تھا تو کسی نے کھڑکی کا پردہ نکال کر اس پر بچھا دیا۔ معاہدے پر دستخط کے لیے قلم موجود نہیں تھا تو ایک صحافی نے اپنا قلم پیش کیا۔
’سرکاری نشریاتی ادارے دوردرشن کی ٹیم چلی گئی تو انہیں واپس بلانے میں ایک گھنٹہ لگا۔ میں نے ہی سرکاری عہدیداروں کو دوردرشن کے ایک سینیئر صحافی کے گھر کا پتہ دیا۔ معاہدے پر دستخط دو جولائی کو نہیں بلکہ تین جولائی کو رات کے قریب 12 بجکر 40 منٹ پر ہوئے۔‘
راج بھون ہماچل پردیش کی ویب سائٹ کے مطابق ’برنز کورٹ‘ کے اس ڈرائنگ روم، میز اور کرسیوں کو محفوظ کر لیا گیا ہے، جن کو ’شملہ معاہدے‘ پر دستخط کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو لکھتی ہیں کہ میں اوپر اپنے بیڈروم میں تھی کہ رات کے 12 بجکر 40 منٹ پر آوازیں آئیں کہ معاہدہ طے پایا ہے۔
’میں بھاگتے ہوئے نیچے آ گئی لیکن صحافیوں کی بھرمار کی وجہ سے وقت پر اس کمرے میں داخل نہ ہو سکی جس میں میرے والد اور مسز گاندھی نے اس معاہدے پر دستخط کیے، جو شملہ معاہدہ کہلاتا ہے۔ اس سے کیا فرق پڑا؟ برصغیر میں دیرپا امن کا قیام عمل میں آیا۔
’شملہ معاہدے نے بھارت کی طرف سے ہم سے چھینے گئے پانچ ہزار مربع میل واپس کر دیے۔ اس معاہدے نے دونوں ملکوں کے درمیان مواصلات اور تجارت کی بحالی کی بنیاد رکھی اور جموں و کشمیر کے تنازعے پر پاکستان یا بھارت کے موقف کو متعصب نہیں کیا۔
’اس معاہدے نے ہمارے جنگی قیدیوں کی واپسی کی راہ بھی ہموار کی جن کے بارے میں بنگلہ دیش میں مجیب الرحمان جنگی جرائم کے الزامات کے تحت ٹرائل کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ لیکن اس معاہدے نے ان کی فوری واپسی یقینی نہیں بنائی۔
’قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کے بغیر واپس آنا میرے والد کے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا اور توقع کے عین مطابق ان کے اہل خانہ اور پاکستانی سیاست دانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
’بھارتی وفد نے میرے والد کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کا سوچا تھا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ تمام 93 ہزار جنگی قیدیوں کو 1974 میں پاکستان کی طرف سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے بعد رہا کیا گیا۔
’تین جولائی کو جب ہم واپس راولپنڈی پہنچے تو موڈ پرجوش تھا۔ ہزاروں لوگ میرے والد کا استقبال کرنے کے لیے ہوائی اڈے پر آئے تھے۔
’میرے والد نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ایک بڑا دن ہے۔ ایک عظیم فتح ہوئی ہے۔ یہ میری جیت ہے نہ مسز گاندھی کی۔ یہ پاکستان اور بھارت کے لوگوں کی جیت ہے جنہوں نے تین جنگوں کے بعد امن حاصل کیا ہے۔
’چار جولائی 1972 کو شملہ معاہدے نے قومی اسمبلی سے متفقہ منظوری حاصل کی یہاں تک کہ اپوزیشن نے بھی خراج تحسین پیش کیا۔ شملہ معاہدہ آج بھی قائم ہے۔‘
پرکاش چند لوہومی کہتے ہیں کہ آج تک پتہ نہیں چل پایا کہ ایک دو گھنٹوں کے دوران ایسا کیا ہوا کہ دونوں رہنما کسی معاہدے پر راضی ہوئے اور اس پر نصف شب کو دستخط بھی کر دیے۔
’آج تک کسی نے اس پر تحقیق ہی نہیں کی۔ کیا اس کی وجہ بین الاقوامی دباؤ تھا یا اور کچھ۔ کسی مورخ یا محقق کو اس پر کام کرنا چاہیے کہ آخر مذاکرات کی ناکامی کے بعد بھی معاہدہ کیسے ہوا؟‘
لوہومی کا ماننا ہے کہ شملہ مذاکرات میں بھٹو کی جیت ہوئی تھی کیوں کہ بھارت نے ان کے تمام مطالبات مانے۔
’بھارت نے پاکستان کو ہزیمت ناک شکست سے دوچار کر کے اس کے دو حصے کر دیے تھے۔ اس (پاکستان) کے تقریباً 95 ہزار جنگی قیدی اور پانچ ہزار مربع میل بھارت کے پاس تھے۔ بھارت چاہتا تو کشمیر پر اچھی سودا بازی کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ اس معاہدے سے بھارت کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘
ثنا اللہ بٹ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ شملہ سمجھوتے میں پاکستان نے کشمیر کے تنازعے میں اپنے فریق ہونے کی پوزیشن منوا لی اور دونوں ملکوں کے درمیان چھ نکاتی سمجھوتہ ہوا۔
’اس میں یہ طے پایا کہ بھارت اور پاکستان جموں و کشمیر کے تنازعے کا دائمی حل تلاش کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے بات چیت کے ذریعے کسی تصفیہ پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
’اس طرح بھارت نے پھر ایک بار ایک بین الاقوامی اقرارنامے کے ذریعے کشمیر کو ایک متنازع مسئلہ تسلیم کر لیا اور اس پر بھارت میں انتہا پسند طبقے نے اظہار ناراضگی کے طور پر مسز اندرا گاندھی کی شملہ سے نئی دہلی واپسی پر ان کے خلاف سیاہ جھنڈوں سے مظاہرے کیے۔ ‘
پرکاش چند لوہومی کے مطابق دہلی میں اندرا گاندھی کے خلاف احتجاج کرنے اور ان کو سیاہ جھنڈے دکھانے والے افراد ہندو نظریاتی تنظیم ’جن سنگھ‘ کے کارکن تھے۔
کیتھرین فرینک لکھتی ہیں کہ پی این ہکسار کے مشورے پر بھٹو اور اندرا نے حامی بھری کہ مستقبل میں کسی مناسب وقت پر دوبارہ ملاقات کی جائے گی تاکہ جموں و کشمیر کے حتمی تصفیے اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
ہکسار نے مصنفہ (کیتھرین فرینک) کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ شملہ میں بھارتی وفد کے لیے ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ بھٹو نے کشمیر میں رائے شماری کا مطالبہ نہیں دہرایا۔
ثنا اللہ بٹ لکھتے ہیں کہ شملہ سمجھوتے پر کشمیری عوام کا ردعمل ملا جلا تھا۔
’شیخ محمد عبداللہ نے شملہ سمجھوتے کے خلاف اپنا ردعمل چار جولائی 1972 کو سوپور عیدگاہ میں اپنی تقریر میں ظاہر کیا اور کہا کہ مسز گاندھی اور مسٹر بھٹو کو کوئی اخلاقی یا قانونی حق نہیں پہنچتا کہ وہ کشمیر کے حل طلب مسئلے کا تصفیہ کشمیری عوام کی مرضی کے بغیر ہی کر لیں۔ یہاں کے لوگ 40 برس سے حق خودارادیت کی جو جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
’بعد میں آٹھ جولائی 1972 کو شیخ عبداللہ نے مسز اندرا گاندھی کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں ان سے کہا گیا کہ کشمیر کے تنازعے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں کشمیری لیڈروں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ ‘
قضیہ ’خفیہ شقوں‘ اور ’راز و نیاز‘ کا
شملہ میں بھٹو کی سفارتی جیت کے بعد یہ افواہیں پھیلیں کہ اندرا گاندھی اور بھٹو کے درمیان راز و نیاز کی باتیں ہوئی ہیں جن کو ’شملہ معاہدے‘ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ’شملہ معاہدے‘ کی ’خفیہ شقیں‘ کہلائی جانی لگیں۔
پی این دھر نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ اندرا گاندھی نے بھٹو سے ’خفیہ گفتگو‘ کے دوران جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی جو ان کے نزدیک واحد قابل عمل حل تھا۔
’ان کا ماننا تھا کہ اس تجویز کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ جنگ کی وجہ سے نہ تو کوئی ملک کوئی علاقہ حاصل کر رہا ہے اور نہ ہی کھو رہا ہے۔
’طویل غور و فکر کے بعد بھٹو اس نتیجے پر پہنچے کہ بھارتی تجویز ہی قابل عمل ہے، لیکن وہ اسے معاہدے میں شامل کرنے پر راضی نہ ہو سکے۔ تاہم وہ عملی طور پر اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کے نفاذ کے لیے کام کریں گے۔
وہ لکھتے ہیں کہ اندرا گاندھی کو خود اس بات کا خدشہ تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر بھارتی دعوے سے باضابطہ دستبرداری ان کے لیے سیاسی پریشانی پیدا کر سکتی ہے۔
’وہ اس بات پر متفق تھیں کہ بھٹو کی طرف سے پیش کیے جانے والے عذر کے پیش نظر اسے معاہدے میں درج نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ اسے بتدریج نافذ کیا جانا چاہیے جیسا کہ انہوں نے تجویز کیا تھا۔ ‘
دھر کا دعویٰ ہے کہ شملہ میں جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کے متعلق کی جانے والی راز و نیاز کی باتیں ’شملہ معاہدے‘ کی ذیلی شق 4(ii) میں پنہاں ہیں۔
’ذیلی شق 4 (ii) کہتی ہے کہ جموں و کشمیر میں 17 دسمبر 1971 کی جنگ بندی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی لائن آف کنٹرول کا دونوں طرف سے، کسی بھی فریق کے تسلیم شدہ موقف کے ساتھ، تعصب کے بغیر احترام کیا جائے گا۔ دونوں فریق اس لائن کی خلاف ورزی میں دھمکی یا طاقت کے استعمال سے باز رہنے کا عہد کرتے ہیں۔‘
دھر اپنی کتاب میں رقم طراز ہیں کہ دا ٹائمز (لندن) کے نامہ نگار پیٹر ہیزل ہرسٹ نے چار جولائی 1972 کو ’شملہ سمٹ میں رعایتیں کشمیر پر ڈیل کی امید پیدا کرتی ہیں‘ کے عنوان سے لکھتے ہوئے اس معاہدے کو ’دو ایشیائی ہمسایہ ممالک کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کی طویل کوششوں میں ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا تھا۔
’ذیلی شق 4 (ii) کی تشریح کرتے ہوئے دا ٹائمز کے نامہ نگار نے لکھا تھا کہ بظاہر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ طور پر حل کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ پاکستان کے بھٹو اگر اس معاہدے کی روح پر قائم رہیں گے تو وہ اقوام متحدہ میں تنازعہ (کشمیر تنازعے کو) نہیں اٹھائیں گے۔
’یہ مسز گاندھی کے لیے ایک اہم رعایت ہے جو کشمیر اور پاکستان کے ساتھ دیگر تنازعات کے حل کے لیے دو طرفہ مفاہمت کی حامی ہیں۔ اس معاہدے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ دونوں فریق کشمیر میں جنگ بندی لائن کو دسمبر (1971) کی ہیئت میں تسلیم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں اور اسے امن کی لکیر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
دھر دعویٰ کرتے ہیں کہ بھٹو ذاتی طور پر ’سٹیٹس کو‘ (جمود) کو مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے طور پر قبول کرنے کو تیار تھے۔
’تاہم وہ اگر ایسا کرتے تھے تو ان کے ملک میں ان کے سیاسی دشمن، خاص طور پر فوجی افسر، ان پر ایک ایسے معاملے پر ہتھیار ڈالنے کا الزام لگاتے جس کو پاکستان میں ایک بڑی تعداد اپنا اہم قومی مفاد سمجھتی ہے۔ نیز ان کے لیے پاکستان کے تمام سیاسی عناصر کی حمایت حاصل کرنا مشکل تھا۔
’بھٹو نے نہ صرف جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول میں تبدیل کرنے پر اتفاق کیا جس کے لیے انہوں نے پہلے لائن آف پیس یا امن کی لائن کی اصطلاح تجویز کی تھی بلکہ اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ اس لائن کو بتدریج بین الاقوامی سرحد کی خصوصیات سے نوازا جائے گا۔
’یہ تبدیلی درج ذیل طریقے سے ہونی تھی: بین الاقوامی سرحد پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ٹریفک کی بحالی میں تیزی آنے کے بعد لائن آف کنٹرول کے آر پار مخصوص پوائنٹس پر ٹریفک کی نقل و حرکت کی اجازت ہو گی۔
’ان مقامات پر امیگریشن کنٹرول اور کسٹم کلیئرنس دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پاکستان زیر انتظام کشمیر) کو پاکستان میں شامل کیا جائے گا۔ شروع میں بھٹو کی پارٹی وہاں اپنی شاخیں قائم کرے گی اور بعد میں اس علاقے کا انتظام و انصرام انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا۔‘
بھٹو کی تردید
بھٹو کی جنرل ضیا الحق کے ہاتھوں معزولی کے بعد اول الذکر پر شملہ میں ’خفیہ شقوں‘ کے تحت پاکستان کے مفادات سے سمجھوتہ کرنے کے الزامات لگے، جن کا جواب انہوں نے اپنی کتاب ’اِف آئی ایم اسیسینیٹڈ‘ میں دیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے: ’بھارت اور پاکستان کو درپیش سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا ہے۔ شملہ میں اہم اقدامات اٹھائے گئے، لہٰذا کنٹرولڈ پریس اور وزارت اطلاعات و نشریات میں حکومت کے لیے کام کرنے والے کچھ بے ضمیر صحافیوں نے کسی میکیولین مقصد سے یہ بے بنیاد افواہ پھیلائی کہ معاہدے میں کشمیر کے متعلق ایک ’خفیہ شق‘ شامل ہے۔
’حکومت جانتی ہے کہ ایسی کوئی خفیہ شق موجود نہیں ہے۔ پھر بھی اس نے اس جھوٹ کی تشہیر کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ میرے کندھے پر بندوق رکھ کر ہتھیار ڈالنے کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہے۔
’اگر شملہ معاہدے میں کشمیر سے متعلق کوئی خفیہ شق موجود ہوتی تو اسے بہت پہلے منظرعام پر لایا جا چکا ہوتا۔ اندرا گاندھی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس کا انکشاف کیا ہوتا۔ جنتا حکومت اقتدار میں آتے ہی اسے جاری کر دیتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر کوئی خفیہ شق موجود تھی تو پھر پانچ جولائی 1977 کی فوجی بغاوت کے بعد فوج کی حکومت نے اس کا انکشاف کیوں نہیں کیا؟
’یہاں تک کہ جب مسٹر واجپائی فروری 1978 میں پاکستان آئے تو انہوں نے بھی ایسا کوئی انکشاف نہیں کیا۔ وہ مبہم بیانات دینے کی بجائے خفیہ معاہدے کے متن کو پیش کر سکتے تھے اور پرزور انداز میں اعلان کر سکتے تھے کہ معذرت حضرات، بھارت اور پاکستان ہماری سابقہ حکومتوں کی اس خفیہ شق کے پابند ہیں جسے میں آپ اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ قبول کریں۔
’مسٹر واجپائی نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے ایسی کسی شق کی طرف اشارہ تک نہیں کیا محض اس لیے کیوں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے شملہ معاہدے پر عمل درآمد پر زور دیا جو موجود ہے اور اسی شکل میں موجود ہے جس شکل میں یہ جولائی 1972 میں طے پایا تھا۔
’مسئلہ کشمیر اب بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے۔ اگر شملہ معاہدے نے اقوام متحدہ کی مداخلت کے راستے بند کر دیے ہوتے تو یہ (مسئلہ کشمیر) وہاں سے واپس لے لیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کو پی پی پی کی حکومت نے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر رکھا ہوا ہے۔
’اقوام متحدہ اب بھی متنازعہ لائن کی نگرانی کر رہی ہے۔ اگر شملہ معاہدہ اقوام متحدہ کو تنازعہ کشمیر سے باہر کر دیتا تو وہ اپنے فوجیوں کو فوراً واپس بلا لیتا۔
’پی پی پی کے دور حکومت میں بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ سے ان فوجیوں کو متنازعہ لائن سے ہٹانے کی درخواست کرنے تک کی جرأت نہیں کی۔ 1976 کے موسم سرما میں ڈنمارک کے وزیر دفاع نے کشمیر میں سرحد پر تعینات اقوام متحدہ کی افواج کے ڈنمارک دستے سے ملاقات کی۔‘
شملہ معاہدہ اور مسئلہ کشمیر
مدثر بشیر بٹ حیدرآباد دکن کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں ’کشمیر میں خاندانی سیاست‘ کے موضوع پر اپنا پی ایچ ڈی مقالہ لکھ رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شملہ معاہدے میں بھارت اور پاکستان نے عہد و پیمان کیا تھا کہ ہم اپنے تمام حل طلب مسائل دو طرفہ مذاکرات یا کسی دوسرے پرامن طریقے سے حل کریں گے۔
’لیکن ماضی قریب میں بھارت نے اس وقت اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جب اس نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات کو ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ لیا۔ ‘
مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جنرل پرویز مشرف کے اٹل بہاری واجپائی اور من موہن سنگھ کے ساتھ مذاکرات اسی شملہ معاہدے کا تسلسل تھا۔
’در حقیقت بھارت دنیا کو دکھانے کے لیے مذاکرات تو کرتا ہے لیکن جب عمل درآمد کی باری آتی ہے تو اپنی آنکھیں بند کرتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو ہی تھے جو مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ لے کر گئے۔‘