کراچی میں آگ سے چار فیکٹریاں جل گئیں: ریسکیو حکام

ریسکیو حکام کے مطابق 24 گھنٹے سے زائد کی کوششوں کے بعد کافی حد تک آگ پر قابو پا لیا گیا اور کولنگ کا عمل جاری ہے۔

کراچی کے صنعتی علاقے لانڈھی میں واقع ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اچانک شدید آگ بھڑک اٹھی، جس پر فائر بریگیڈ اور ریسکیو ٹیموں نے مسلسل 24 گھنٹے سے زائد جدوجہد پیر کی صبح تک کافی قابو پا لیا۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان حسن خان کے مطابق آگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، تاہم فیکٹریوں کے بعض اندرونی حصوں میں اب بھی شعلے موجود ہیں اور کولنگ کا عمل تاحال جاری ہے۔

آگ تیسرے درجے کی قرار

فائر آفیسر ہمایوں خان نے بتایا کہ ’آگ کی شدت کافی زیادہ تھی اس لیے اسے تیسرے درجے کی آگ قرار دیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’آگ لگنے کی اطلاع بروقت نہیں ملی، جس کی وجہ سے بروقت کارروائی ممکن نہ ہو سکی۔ ابتدا میں آگ ایک فیکٹری میں لگی، لیکن تیزی سے پھیل کر چار فیکٹریوں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ متاثرہ فیکٹریوں میں کاسمیٹکس، آئل، کیمیکل کا کام ہوتا تھا۔

’ایک فیکٹری مکمل طور پر زمین بوس ہو گئی، دو فیکٹریاں جل گئیں جبکہ چوتھی کو جزوی طور سے نقصان پہنچا ہے۔ فیکٹریوں کو شدید نقصان پہنچنے کےباعث انہیں مخدوش قرار دے دیا گیا ہے۔‘

’فیکٹریوں میں فائر سیفٹی کے انتظامات موجود نہیں تھے‘

ریسکیو 1122 کے ترجمان حسن خان نے بتایا کہ ’کراچی کے ایکسپورٹ پروسیسنگ زون میں آتش زدگی کے واقعے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ متاثرہ فیکٹریوں میں فائر مینیجمنٹ کا کوئی مؤثر نظام موجودنہیں تھا۔ 

’کسی بھی فیکٹری میں فائر الارم، ایمرجنسی فائر ایکزٹ (باہر نکلنے کے) مناسب راستے موجود نہیں تھے، جن کے ذریعے آگ کے دوران عملے کو محفوظ مقامات تک منتقل کیا جا سکتا۔ 

’فیکٹریوں میں وینٹیلیشن کا نظام بھی نہ ہونےکے برابر تھا، جس کے باعث آگ فیکٹریوں کے اندرونی حصوں میں تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔‘

 انہوں نے بتایا کہ ’امدادی کاموں میں شدید مشکلات پیش آئیںجبکہ فیکٹریوں میں بنیادی حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس قدر بڑا نقصان ہوا۔

’یہ واقعہ صنعتی اداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ واقعے کی مکمل تحقیقات کے بعد متعلقہ اداروں کے خلاف کارروائی متوقع ہے۔،

عید کے سبب فیکٹریاں بند تھیں

 ریسکیو 1122 کے مطابق امدادی کارروائیوں میں 14 فائر ٹیکرز اور دیگر گاڑیاں استعمال کی گئیں۔ عید کی تعطیلات کے باعث خوش قسمتی سے فیکٹریاں بند تھیں، جس کے باعث کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’تاہم آگ کے نتیجے میں ہونے والے بھاری مالی نقصان کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں تاکہ اصل وجوہات کا تعین کیا جا سکے۔‘

زخمی افراد ہسپتال منتقل

حسن خان کے مطابق ’آگ بجھانے کے دوران فیکٹریوں کے ایک حصے کی چھت گرنے سے پانچ افراد زخمی ہوئے۔ تمام زخمیوں کو فوری طور پر سول ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کا علاج جاری ہے اور حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔ 

وزیر اعلیٰ سندھ کا نوٹس، رپورٹ طلب

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے رپورٹ طلب کر لی اور کہا کہ متاثرین کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔

’فائر بریگیڈ اداروں کو جدید آلات سے لیس کیا جائے‘

آتش زدگی سے متاثرہ کاسمیٹکس فیکٹری کے مالک عرفان حنیف نے ریسکیو اداروں کی کارکردگی پر شدید عدم اطمینان کا اظہار کیا اور الزام عائد کیا کہ ’جائے وقوعہ پر امدادی کارروائیاں سست روی کا شکار رہیں جبکہ فائر بریگیڈ عملے کے پاس مناسب آلات اور ضروری ایکوئپمنٹ موجود نہیں تھا۔‘

انہوں نے کہا: ’میں جائے وقوعہ پر شور کرتا رہا لیکن فائر بریگیڈ کے عملے کے پاس ایکوئپمنٹ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی موثر حکمتِ عملی۔ ہمیں افسوس ہے کہ اتنے بڑے شہر میں آگ بجھانے کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔‘

عرفان حنیف کا کہناتھا کہ فیکٹری میں آگ بجھانے کے بنیادی انتظامات موجود تھے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ فائر بریگیڈ اور ریسکیو اداروں کو جدید آلات سے لیس کیا جائے تاکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچا جا سکے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان