ٹرمپ کی دھمکیاں، امیگریشن پالیسیوں کے خلاف احتجاج

سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کے خلاف لاس اینجلس میں کئی دنوں سے جاری احتجاج کا دائرہ کار بڑھ کر امریکہ کے دیگر شہروں تک پھیل گیا ہے جب کہ ریاست کیلی فورنیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فوج تعیناتی کے فیصلے پر قانونی جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔

سخت گیر امیگریشن پالیسیوں کے خلاف لاس اینجلس میں کئی دنوں سے جاری احتجاج کا دائرہ کار بڑھ کر امریکہ کے دیگر شہروں تک پھیل گیا ہے جب کہ ریاست کیلی فورنیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فوج تعیناتی کے فیصلے پر قانونی جنگ کی تیاری کر رہی ہے۔

امریکہ کے دوسرے بڑے شہر میں ایک ہزار سے زائد افراد مسلسل چھٹے روز پرامن مظاہرے میں شریک ہوئے اور سڑکوں پر مارچ کیا۔

رات کے وقت ہونے والی توڑ پھوڑ اور لوٹ مار پر قابو پانے کی کوششوں کے تحت شہر میں دوسرے روز بھی کرفیو نافذ رہا۔ اس توڑ پھوڑ سے 500 مربع میل (1,300 مربع کلومیٹر) کے میٹروپولیٹن علاقے کے چند بلاکس متاثر ہوئے ہیں۔

66 سالہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر اور مظاہرہ کرنے والی لن سٹرجس نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں کہوں گی کہ یہاں گراؤنڈ زیرو پر زیادہ تر حالات بالکل ٹھیک ہیں۔ ہمارا شہر بالکل بھی جل نہیں رہا، نہ ہی تباہ ہو رہا ہے، جیسا کہ ہمارا بدترین لیڈر آپ کو بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘

یہ زیادہ تر پرامن مظاہرے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کی گرفتاری کی کارروائیوں میں اچانک شدت آنے کے بعد شروع ہوئے۔

پولیس پر پتھراؤ اور خودکار ٹیکسیوں کو نذر آتش کرنے جیسے تشدد کے کچھ واقعات پیش آئے، لیکن لاس اینجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ کے آٹھ ہزار 500 اہلکاروں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔

ٹرمپ نے گذشتہ سال کا انتخاب غیرقانونی مہاجرین کی ’یلغار‘ روکنے کے وعدوں پر جیتا تھا۔

اب وہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے موقعے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کیلی فورنیاکے گورنر گیون نیوسم کی مخالفت کے باوجود نیشنل گارڈ تعینات کر دیے ہیں۔ یہ امریکہ کی دہائیوں بعد پہلی مثال ہے جب کسی صدر نے ایسا کیا ہو۔

واشنگٹن میں ’لی میزرابلز‘ کے ایک شو میں جاتے ہوئے ٹرمپ نے صحافیوں سے کہا: ’ہم اپنے ملک کو محفوظ رکھیں گے۔ ہم ایسا کچھ نہیں ہونے دیں گے جو لاس اینجلس میں ہو سکتا تھا۔ یاد رکھو، اگر میں وہاں نہ ہوتا۔۔۔ تو لاس اینجلس راکھ کا ڈھیر بن چکا ہوتا۔‘

آپریشن کی قیادت کرنے والے آرمی نارتھ کے ڈپٹی کمانڈنگ جنرل سکاٹ شرمین نے بتایا کہ اس وقت 4,700 تعینات فوجیوں میں سے تقریباً ایک ہزار فعال طور پر امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ ایجنٹس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا باقی 700 میرینز سمیت دیگر فوجی اہلکار فسادات سے نمٹنے کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پینٹاگون کے مطابق اس تعیناتی پر ٹیکس دہندگان کے 13 کروڑ 40 لاکھ ڈالر خرچ آئیں گے۔

ڈیموکریٹ گورنر گیون نیوسم، جنہیں 2028 کے صدارتی انتخاب کا ممکنہ امیدوار سمجھا جا رہا ہے، نے ٹرمپ پر سیاسی فائدے کے لیے تصادم بڑھانے کا الزام لگایا ہے۔

انہوں نے منگل کو خبردار کیا کہ فوجی تعیناتی کا یہ رجحان کیلی فورنیا سے نکل کر دیگر ریاستوں تک بھی پھیل سکتا ہے، اور کہا: ’جمہوریت ہماری آنکھوں کے سامنے خطرے میں ہے۔‘

کیلی فورنیاکے وکلا جمعرات کو عدالت میں یہ درخواست دینے والے تھے کہ فوجی اہلکاروں کو امیگریشن افسران کے ساتھ تارکین وطن کی گرفتاریوں میں شامل ہونے سے روکا جائے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے وکلا نے اس درخواست کو ’سستی سیاسی چال‘ قرار دیا۔

شدت اختیار کرتے ملک گیر مظاہرے

ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈ کو دیگر ڈیموکریٹک ریاستوں میں تعینات کرنے کی دھمکیوں کے باوجود مظاہرین خوفزدہ نہیں ہوئے۔

سینٹ لوئس، ریلی، مین ہیٹن، انڈیاناپولس، سپوکن اور ڈینور میں مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں۔

سان انتونیو میں سینکڑوں افراد نے سٹی ہال کے قریب مارچ کیا، جہاں رپبلکن ٹیکسس گورنر گریگ ایبٹ نے ریاستی نیشنل گارڈ تعینات کر دی ہے۔

ہفتے کو ایک ملک گیر ’نو کنگز‘ تحریک کا اعلان کیا گیا ہے، جس روز ٹرمپ امریکی دارالحکومت میں ایک غیر معمولی فوجی پریڈ میں شرکت کریں گے۔

یہ پریڈ، جس میں جنگی طیارے اور ٹینک شامل ہوں گے، امریکی فوج کی 250ویں سالگرہ کے لیے رکھی گئی ہے، لیکن یہ ٹرمپ کی 79 ویں سالگرہ کا دن بھی ہے۔

’بگڑتی‘ صورت حال

ٹرمپ انتظامیہ ان مظاہروں کو ملک کے لیے ایک پرتشدد خطرہ قرار دے رہی ہے، جس سے نمٹنے کے لیے فوجی طاقت سے امیگریشن افسران اور پولیس کی معاونت کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے۔

لیکن لاس اینجلس کی میئر کیرن باس کا کہنا ہے کہ یہ بحران واشنگٹن میں جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا: ’ایک ہفتہ پہلے تک لاس اینجلس شہر میں سب کچھ پرامن تھا۔ جمعے کو جب چھاپے مارے گئے، تب حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔۔۔ یہی مسائل کی اصل وجہ ہے۔ یہ سب کچھ وائٹ ہاؤس کی طرف سے اشتعال دلانے کا نتیجہ ہے۔‘

بدھ کو نقاب پوش اور مسلح افراد کی جانب سے گرفتاریاں جاری رہیں۔

لاس اینجلس کے نواحی علاقے ڈاؤنی میں ایک پادری نے بتایا کہ پانچ مسلح افراد، جو ریاست سے باہر کی گاڑیاں چلا رہے تھے، چرچ کی پارکنگ میں ایک ہسپانوی زبان بولنے والے شخص کو پکڑ کر لے گئے۔

جب انہوں نے ان افراد سے ان کے بیج نمبرز اور نام پوچھے، تو انہوں نے انکار کر دیا۔

لوپیز نے نشریاتی ادارے کے ٹی ایل اے کو بتایا: ’انہوں نے مجھ پر اپنی رائفل تان دی اور کہا، ’تمہیں پیچھے ہٹنا ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ