ویتنام کی پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک بڑے بین الاقوامی سروگیسی نیٹ ورک کو توڑ کر 11 نوزائیدہ بچوں کو بازیاب کرایا اور کئی صوبوں میں متعدد افراد کو گرفتار کیا ہے۔
پبلک سکیورٹی کی وزارت کے ماتحت کرمنل پولیس ڈیپارٹمنٹ نے جمعہ کو بتایا کہ یہ گروہ، جس کا ماسٹر مائنڈ صرف ’وانگ‘ کے نام سے معروف ایک چینی شہری تھا، خواتین کا منظم استحصال کر رہا تھا۔ یہ نیٹ ورک خفیہ پیغامات، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور جعلی شناختوں کا استعمال کرکے قانون کی نظروں سے بچا رہا۔
پولیس نے اس نیٹ ورک سے نو دن سے تین ماہ کی عمر کے 11 نوزائیدہ بچوں کو بازیاب کرایا۔
ویتنام میں سروگیسی صرف سخت قوانین اور خالصتاً انسانی بنیادوں پر قانونی ہے۔ تجارتی بنیادوں پر سروگیسی غیر قانونی ہے اور اس کے منتظمین اور دلالوں کو مجرمانہ سزائیں دی جاتی ہیں۔
حکام کو اس سکیم کا پہلی بار اس وقت علم ہوا جب پولیس نے بین الاقوامی روابط رکھنے والے تجارتی سروگیسی سے متعلق سوشل میڈیا پر غیر معمولی سرگرمی پر نظر رکھنی شروع کی۔
تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مالی طور پر کمزور ویتنامی خواتین کو سروگیسی کے لیے بطور ماں بھرتی کیا جا رہا تھا اور انہیں چین یا کمبوڈیا لے جایا جاتا تھا، جہاں ان کے رحم میں ایمبریو رکھا جاتا تھا۔ پھر انہیں حمل مکمل کرنے کے لیے ویتنام واپس بھیج دیا جاتا تھا۔
ڈپٹی منسٹر، سینئر لیفٹیننٹ جنرل نگوین وان لانگ کے حکم پر 15 جولائی کو ایک مربوط آپریشن کیا گیا، جس کے نتیجے میں متعدد گرفتاریاں ہوئیں۔
ویتنام نیوز نے رپورٹ کیا کہ ملزمان میں سے ایک، ’کواچ تھی تھوونگ‘، جو زالو (ویتنامی انسٹنٹ میسجنگ ملٹی پلیٹ فارم سروس) پر ’کوکا‘ اور ’پیپسی‘ کے نام سے کام کر رہی تھیں، کو 2021 کے آخر میں وانگ نے بھرتی کیا تھا۔ ان کا کام 35 سال سے کم عمر، صحت مند خواتین کو سروگیسی کے لیے تلاش کرنا تھا۔ وہ نگہداشت کرنے والوں کا انتظام بھی کرتی تھی اور پیدائش کے اندراجات، ڈی این اے ٹیسٹ، پدری سرٹیفکیٹس، اور سفری دستاویزات کا انتظام سنبھالتی تھیں۔
پولیس کے مطابق تھوونگ کو ماہانہ 1,000 امریکی ڈالر ملتے تھے، جبکہ ایک سابق سروگیسی والی ماں ’فام تھی ہوائی تھو،‘ جنہوں نے ہسپتال کے انتظامات سنبھالنا شروع کیے، کو 500 امریکی ڈالر ماہانہ دیے جاتے تھے۔
دیگر ملزمان میں ’فنگ تھی نوونگ‘، ’نگوین تھی ہینگ‘، ’نگوین تھی تھو ٹرانگ‘ اور ’لو تھی تھانہ‘ شامل ہیں۔ ان پر تجارتی بنیادوں پر سروگیسی کا انتظام کرنے کا باضابطہ الزام عائد کیا گیا ہے۔
ہر ماں کو فی حمل 30 کروڑ سے 40 کروڑ ویتنامی ڈونگ (8,500 سے 11,350 پاؤنڈ) ادا کیے جاتے تھے۔ تھوونگ پر الزام ہے کہ انہوں نے تقریباً 60 کیسز کا انتظام کیا، جن سے اسے تقریباً 57 کرور 50 لاکھ ڈونگ (16,325 پاؤنڈ) حاصل ہوئے، جبکہ تھو نے تقریباً 40 کیسز سنبھالے اور تقریباً 34 کرور 50 لاکھ ڈونگ (9,795 پاؤنڈ) کمائے۔
پولیس کے مطابق سیروگیسی والی ماؤں کو ادائیگیاں حمل کے مراحل کے مطابق کی جاتی تھیں۔
جیجی پریس رپورٹ کے مطابق کامیاب ایمبریو ٹرانسفر کے بعد ہر خاتون کو ایک کروڑ ڈونگ (284 پاؤنڈ) کا بونس ملتا تھا، اور حمل کے دوران ماہانہ آٹھ کروڑ ڈونگ (227 پاؤنڈ) گزارہ الاؤنس دیا جاتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیدائش کے وقت انہیں 19 کروڑ 80 لاکھ ڈونگ (5,621 پاؤنڈ) تک ادا کیے جاتے تھے۔ تاہم، کچھ صورتوں میں کٹوتیاں کی جاتی تھیں: 35 سے 38 سال کی عمر کی خواتین کی رقم میں تی کروڑ ڈونگ (851 پاؤنڈ) کم کر دیے جاتے تھے، اور اگر حمل 32 ہفتے سے پہلے قبل از وقت ختم ہو جائے تو 1,000 امریکی ڈالر کاٹ لیے جاتے تھے اور کوئی اضافی بونس نہیں دیا جاتا تھا۔
کچھ سیروگیسی والی ماؤں نے حتیٰ کہ اس سکیم میں بطور آیا بھی کام جاری رکھا، اور روزانہ 750,000 ڈونگ (21 پاؤنڈ) تک کماتی تھیں۔
پکڑے جانے سے بچنے کے لیے یہ لوگ انتہائی سکیورٹی والے پرتعیش فلیٹس میں رہتے اور جگہیں بار بار بدلتے تھے۔
تحقیقات کے دوران تین چینی شہریوں کو بھی گرفتار کیا گیا جو مئی میں ویتنام میں اس نیٹ ورک سے بچہ لینے آئے تھے۔
بازیاب کرائے گئے بچوں کو اس وقت ویتنام ویمنز یونین کے سینٹر فار ویمن اینڈ ڈیولپمنٹ کے زیرِ انتظام شیلٹر میں رکھا گیا ہے، جہاں وزارتِ صحت کے محکمہ برائے زچگی و اطفال اور ویتنام چلڈرن پروٹیکشن فنڈ کی معاونت حاصل ہے۔
© The Independent