’کراچی میں سب سے پہلے کرکٹ پارسیوں نے سیکھی:‘ کرکٹ تاریخ پر ایک دلچسپ کتاب

پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں غیر مسلم کھلاڑیوں پر نئی کتاب ’کراچی کے غیر مسلم کرکٹرز‘ شائع۔

پاکستان کے سب سے مقبول کھیل کرکٹ کی تاریخ میں کراچی کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا ہے۔

اس شہر نے کئی کرکٹ سٹارز دیے لیکن ان میں وہ غیر مسلم کرکٹر بھی شامل ہیں جنہوں نے برطانوی دور سے لے کر موجودہ دور تک اپنی کارکردگی سے شہر اور ملک کا نام روشن کیا۔

28 اگست کو کراچی کی آرٹس کونسل آف پاکستان میں محقق شاہ ولی اللہ جنیدی کی کتاب ’کراچی کے غیر مسلم کرکٹرز‘ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ 

کتاب میں کراچی کے ان غیر مسلم کھلاڑیوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو مختلف ادوار میں ناصرف پاکستان بلکہ بیرون ملک کی کرکٹ ٹیموں کا حصہ رہے۔ 

مصنف سے جب پوچھا گیا کہ انہیں یہ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی کی تاریخ پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں اور مختلف مضامین بھی تحریر کرتے رہتے ہیں۔ 

جب انہوں نے کراچی کے غیر مسلم کرکٹرز پر ایک مضمون لکھا، جو جنگ اخبار اور ایک میگزین میں شائع ہوا، تو اسے بہت پذیرائی ملی۔ 

جنیدی کے مطابق ملک کے اندر اور بیرون ملک سے لوگوں نے ان سے رابطہ کیا، یہاں تک کہ کچھ غیر مسلم کرکٹرز کے خاندان کے افراد نے بھی ان سے رابطہ کیا۔ 

اس تجربے سے انہیں خیال آیا کہ اس موضوع پر مکمل کتاب لکھی جائے۔

جنیدی کا کہنا ہے کہ اس کتاب کی تیاری میں انہیں کئی سال لگے کیونکہ اس کے لیے مستند مواد اور معتبر ذرائع کی تلاش ضروری تھی۔ 

انہوں نے مختلف سینیئر کرکٹرز سے ملاقات کی، غیر مسلم کھلاڑیوں کے خاندانوں سے رابطہ کیا اور پارسی کلبز جا کر معلومات اکٹھی کیں۔ 

انہوں نے مختلف ویب سائٹس، کتابوں اور ذرائع سے استفادہ کیا، کئی لوگوں سے ملاقات کی اور ایک طویل تحقیقی عمل کے بعد یہ کتاب مکمل کی۔ 

برطانوی دور میں جب کراچی میں کرکٹ کا آغاز ہوا تو اس دور میں متعدد میدان موجود تھے، جہاں ہندو، مسلمان، پارسی، مسیحی اور یہودی سب کرکٹ کھیلتے تھے۔

جنیدی کے مطابق ’کرکٹ سب سے پہلے پارسیوں نے سیکھی، پھر مسیحیوں نے۔ مسلمان اس وقت کرکٹ کو ’فرنگیوں کا کھیل‘  سمجھ کر اس سے دور رہے۔

’لیکن قیام پاکستان کے بعد صورتحال بدلی اور مسلمانوں نے بھی اس میدان میں نام پیدا کیا، جیسے حنیف محمد۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’برصغیر میں کلکتہ اور کراچی دو بڑے مراکز تھے جہاں کرکٹ منظم انداز میں کھیلی جاتی تھی۔ 

’چونکہ کراچی بندرگاہ کا شہر تھا، انگریز یہاں نوکریوں اور تجارت کے سلسلے میں آئے اور اپنے کھیل بھی یہاں لائے۔ 

’انیسویں صدی میں جب برصغیر سے پہلی ٹیم برطانیہ گئی تو اس میں کراچی کے تین یا چار کرکٹرز شامل تھے اور وہ سب پارسی تھے۔‘

جنیدی بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتاب میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ان تمام غیر مسلم کرکٹرز کو شامل کیا ہے جو کراچی میں پیدا ہوئے یا یہاں کرکٹ کھیلی۔ 

’آج غیر مسلم کھلاڑیوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے، کچھ ایسے بھی ہیں جو کراچی میں پیدا ہوئے مگر اب بیرون ملک جیسے جرمنی، انگلینڈ یا امریکہ میں کرکٹ کھیل رہے ہیں۔‘

جنیدی کے مطابق اس کتاب کا مقصد ان غیر مسلم کھلاڑیوں کی خدمات کو اجاگر کرنا ہے جنہوں نے کراچی کی کرکٹ تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا۔‘

سینیئر صحافی مظہر عباس نے تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ 2010 کے بعد سے کوئی غیر مسلم کھلاڑی پاکستان کی نمائندگی نہیں کر سکا۔ 

’کراچی میں وقت کے ساتھ بہت کچھ ختم ہو گیا – کرکٹ بورڈ کی منتقلی، میدانوں کا خاتمہ اور تکنیکی وسائل کا ضیاع جس کے باعث باصلاحیت کھلاڑی ابھرنے سے قاصر رہے۔‘

مظہر عباس کو کرکٹ بورڈ سے کسی قسم کی امید نہیں۔ ’ٹیلنٹ کہیں سے بھی آسکتا ہے۔ ہم نے ٹیلنٹ کو ضائع ہوتے دیکھا۔متعدد کھلاڑیوں نے ٹرائلز دیے مگر وہ منتخب نہ ہو سکے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول ’یہ کتاب اس کمی کو پورا کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہے جس میں ایسے کھلاڑیوں پر تحقیقی کام کیا گیا ہے جنہیں ماضی میں نظر انداز کیا گیا۔‘

کرکٹ کی دنیا پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور بذات خود حیدر آباد میں کلاس کرکٹ کھیلنے والے قمر احمد نے بتایا ’اس کھیل کی مقبولیت اٹھارویں صدی میں جوئے بازی کے باعث بڑھی۔ موجودہ دور میں ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی مقبولیت بھی اسی رجحان کا تسلسل ہے۔‘

ان کے مطابق کرکٹ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، مگر تاریخ میں ایسے لمحات ضرور آئے جب مذہب کا عمل دخل محسوس کیا گیا۔ 

’انگریز جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے برصغیر میں آئے تو سب سے پہلے پارسی برادری نے ان کے ساتھ کرکٹ کھیلنا شروع کی، بعد ازاں ہندو اور پھر مسلمان کھلاڑی سامنے آئے۔‘

انہوں نے پینٹاگولر سیریز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’اس سیریز میں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی شامل ہوتے تھے۔ 

انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ 1911 میں ہندو ٹیم کا ایک نمایاں کھلاڑی، جس نے 12 میچوں میں 87 وکٹیں حاصل کیں، گوروں کے خلاف کھیلنے کے باوجود اپنی ہی ٹیم کے ہاتھوں نسلی امتیاز کا شکار ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ کتاب کراچی سے تعلق رکھنے والے ان غیر ملکی کھلاڑیوں کا بھی ذکر کرتی ہے جنہوں نے مختلف ممالک کی نمائندگی کی اور اپنی کارکردگی سے کراچی کی پہچان کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔

’اس نادر موضوع پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے، جو محض کرکٹ ہی نہیں بلکہ سماجی تاریخ کا بھی ایک اہم حوالہ بن سکتی ہے۔‘

اردو اور انگریزی میں شائع ہونے والی اس کتاب کے 130 صفحات میں کرکٹ، تاریخ اور معاشرتی ارتقا کا امتزاج موجود ہے۔ 

کتاب میں نامور صحافی، سابق فرسٹ کلاس کرکٹر اور کمنٹیٹر قمر احمد اور صحافی سہیل دانش کے تاثرات بھی شامل کیے گئے ہیں، جنہوں نے اسے ایک اہم اور منفرد کاوش قرار دیا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ