گھر کب آؤ گے ۔۔۔ انڈین ٹرکوں پر چھپی کہانیاں

راج کمار اور ہریش کمار مقبول ٹرک فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے اپنے والد اور دادا کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کی دکان ہمیشہ ڈرائیوروں سے بھری رہتی ہے جو اپنے ٹرکوں کو نئی پہچان دلوانا چاہتے ہیں۔

 دہلی کے سنجے گاندھی ٹرانسپورٹ نگر (SGTN) میں، جو ایشیا کا سب سے بڑا ٹرکنگ مرکز مانا جاتا ہے، ہر روز انڈیا بھر سے ہزاروں ٹرک مرمت، سروسنگ اور سجاوٹ کے لیے آتے ہیں۔

یہ وسیع ڈپو، جو 75 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے، 70 ہزار سے زیادہ ٹرک یہاں سجاوٹ کے لیے آ چکے ہیں۔ یہاں ایک روایت آج بھی قائم ہے: ہاتھ سے پینٹ شدہ آرٹ اور خطاطی، جو انڈین ٹرکوں کو ایک منفرد شناخت عطا کرتی ہے۔

کمپیوٹرائزڈ پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی آمد کے باوجود ہاتھ سے پینٹ کیے گئے فن کی مانگ ختم نہیں ہوئی۔ گاہک اب بھی اس انداز کو اس کے ذاتی لمس، ثقافتی جھلک اور اس بات کی صلاحیت کے سبب پسند کرتے ہیں کہ یہ ان کے عقائد، جذبات اور سوچ کی حقیقی عکاسی کرتا ہے۔ اکثر ڈرائیور اپنے ٹرک پر ایسے نعرے یا اشعار لکھواتے ہیں جو ان کے دل کی آواز ہوتے ہیں۔

ایس جی ٹی این میں کام کرنے والے دو بھائی، راج کمار اور ہریش کمار مقبول ٹرک فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کئی دہائیوں سے اپنے والد اور دادا کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کی دکان ہمیشہ ڈرائیوروں سے بھری رہتی ہے جو اپنے ٹرکوں کو نئی پہچان دلوانا چاہتے ہیں۔

ہریش کمار بتاتے ہیں: ’میں پچھلے 20 برسوں سے یہ کام کر رہا ہوں۔ ہمارا کام گاہک کی مانگ کے مطابق پینٹ سے لکھنا ہے۔ آج کل بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ اور جئے جوان، جئے کسان جیسے نعرے بہت مقبول ہیں۔ تقریباً 25 برس پہلے لوگ ہم دو، ہمارے دو زیادہ پسند کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ معاشرتی رجحانات بدلتے رہتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں: ’بہت سے گاہک شاعری بھی لکھواتے ہیں—کچھ محبت کے بارے میں، کچھ جدائی کے درد پر۔ ایک عام ڈیزائن دریا کنارے بیٹھی لڑکی کے ساتھ یہ جملہ ہوتا ہے: گھر کب آؤ گے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بڑے بھائی راج کمار اس فن کو محض سجاوٹ نہیں بلکہ ایک روایت قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق: ’انڈیا میں ٹرک پینٹنگ کا آغاز تقریباً ایک صدی پہلے ہوا تھا۔ ڈرائیور چونکہ اپنے خاندان سے ہفتوں دور رہتے تھے، اس لیے وہ اپنے ٹرکوں پر پیغامات، تصاویر اور حفاظت کی دعائیں بنواتے تھے۔ وقت کے ساتھ یہ شناخت بن گئی اور ہر علاقے نے اپنا الگ انداز اختیار کیا۔ مثلاً پنجابی ٹرکوں پر سدھو موسے والا یا ببو مان پینٹ ہوتے ہیں، جب کہ اتر پردیش کے ٹرکوں پر منوج تیواری۔‘

راج کمار مزید کہتے ہیں: ’یہ کوئی عام کام نہیں۔ برسوں کی مشق اور باریک بینی درکار ہوتی ہے۔ اسی لیے گاہک ہمیں ترجیح دیتے ہیں۔ اگر کوئی اور دو ہزار روپے لیتا ہے تو ہم چھ ہزار لیتے ہیں اور پھر بھی لوگ ہمارے پاس آتے ہیں کیونکہ انہیں ہمارے کام پر اعتماد ہے۔‘

اگرچہ ڈیجیٹل پرنٹنگ سستی اور تیز ہے لیکن یہ فنکار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسانی لمس کو کبھی بدلا نہیں جا سکتا۔ ہریش کہتے ہیں: ’ایک کمپیوٹر تصویر بنا سکتا ہے، مگر اس میں روح نہیں ڈال سکتا۔ ہم گاہک سے بات کرتے ہیں، ان کے جذبات سمجھتے ہیں اور پھر کچھ ایسا بناتے ہیں جو صرف ان کے لیے ہو۔‘

ان کے مطابق رنگوں کے رجحانات بھی وقت کے ساتھ بدلتے ہیں۔ ’پہلے سنہری بھوری کا رواج تھا، اب سفید اور پیلا زیادہ چل رہا ہے۔ تاج محل بھی ان دنوں ایک مقبول ڈیزائن ہے۔‘

راج کمار کے لیے اصل خوشی صرف روزی کمانے سے نہیں بلکہ اس روایت کو زندہ رکھنے سے ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’ہمارے دادا نے یہ فن شروع کیا، پھر ہمارے والد نے اسے آگے بڑھایا، اور اب ہم کر رہے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک ٹرک انڈیای سڑکوں پر چلتے رہیں گے، یہ فن بھی ان کے ساتھ زندہ رہے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا