چلتے ٹرکوں کے نیچے چھپ کر سرحد پار کرنے والے افغان بچے

افغانستان میں بھوک و افلاس اور انسانی بحران کی وجہ سے گذشتہ حکومت کی طرح اب بھی سرحدی گزرگاہوں سے افغان بچوں کی غیر قانونی آمدورفت اور اشیا کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔

ایک پانچ سالہ افغان بچی سر پر چادر اوڑھے تین سالہ چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھامے کھڑی تھی۔ دونوں کے پاس تھیلے موجود تھے۔ اردو وہ سمجھ نہیں سکتی تھی، پشتو میں جب سوال کیا کہ تھیلوں میں کیا ہے تو اُس نے ڈرتے ہوئے بتایا چینی اور بھائی کے تھیلے میں آٹا۔

افغانستان کی گذشتہ حکومت کے دوران پاکستانی سرحد پر افغان بچوں کی غیر قانونی آمدورفت اور اشیا کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری تھا جس پر طالبان حکومت آنے کے بعد طرفین نے قابو پانے کی کوشش کی۔

بھوک افلاس اور انسانی بحران کی وجہ سے سرحد پار اشیا کی غیر قانونی خرید و فروخت کا سلسلہ مکمل طور پر روکا نہ جا سکا۔

معلومات کے مطابق یہ سلسلہ صرف طورخم سرحد پر نہیں ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ قائم تینوں تجارتی راہداریوں پر جاری ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے طورخم سرحد کا دورہ کیا اور اپنی آنکھوں سے سرحد پر ان چھوٹے بچوں کو کمر پر بوریاں لادے ہوئے اور کپڑے کے بیگ بنا کر رسیوں سے کندھوں پر باندھ کر ٹرکوں کے پیچھے بھاگتے دیکھا۔

طورخم سرحد پر 35 کلومیٹر کا علاقہ فری زون ہے، ساڑھے 17 کلومیٹر افغانستان کی سرحد کے اندر اور ساڑھے 17 پاکستان کی سرحد کے طرف، جہاں تک پر مقامی افراد کی گارنٹی پر بغیر ویزا آیا جا سکتا ہے اور دو تین دن کا قیام بھی کیا جا سکتا ہے لیکن حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر اس آمدورفت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

طورخم سرحد میں پاکستان اور افغانستان کے داخلی دروازوں کے درمیان تقریباً دو سو میٹر کی جگہ ہے جہاں پر کھڑے ہو کر دونوں سرحدی داخلی مقامات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

افغانستان کے داخلی دروازے کے پاس طالبان کمانڈرز موجود تھے جب کہ اُن کے پیچھے 25، 30 بچوں کا ہجوم تھا جنہوں نے کندھوں پر بوری نما بستے لاد رکھے تھے۔

اُن بستوں میں کیا تھا یہ علم نہیں۔ لیکن اُن بچوں کی عمریں تین سے 10 سال کے درمیان تھیں، جو ہر آتے جاتے ٹرک کو دیکھ رہے تھے کہ کسی طرح اس پر سوار ہو کر پاکستان داخل ہو سکیں اور یہاں وہ اشیا فروخت کر کے اس کے بدلے میں چینی اور آٹا لے سکیں۔

اسی اثنا میں بارڈر سکیورٹی حکام ایک ٹرک کے پیچھے دوڑے کہ اس میں بچے چُھپ کر آ گئے ہیں۔ ہم نے قریب جا کر دیکھا تو ان بڑے ٹریلوں کے ٹائروں کے اوپر اندرونی جگہ پر چار پانچ سال کے بچے چھپے بیٹھے تھے جنہیں سکیورٹی حکام نے باہر نکالا اور واپس افغان سرحدی گیٹ کی طرف روانہ کیا۔

ہم نے سکیورٹی حکام سے بات کی تو انہوں نے بتایا: ’یہ بچے روزانہ آتے ہیں اور دو سو کے قریب بچے کوشش کرتے ہیں کہ ٹرکوں میں چھپ کر آئیں سامان بیچیں اور واپس جانے والے ٹرکوں میں بیٹھ کر اور بعض اوقات پیدل واپس چلے جائیں۔‘

بچوں کے بستوں میں کون سا سامان ہوتا ہے اس سوال کے جواب میں وہاں موجود کسٹم آفیسر جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سگریٹ، بیٹریز، کھانے پینے کی اشیا اور کچھ مشروبات وغیرہ ہوتے ہیں جو یہ یہاں آ کر مقامی افراد کو دیتے ہیں جس کے بدلے میں وہ انہیں چینی آٹا دالیں وغیرہ دیتے ہیں۔‘

کسٹم ایجنٹ تیمور خان نے بتایا: ’بعض تھیلوں میں ممنوعہ ادویات اور نشہ آور اشیا بھی ہوتی ہیں جو وہ ادھر سستے داموں آ کر فروخت کرتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ٹرکوں میں چھپ کر یا لٹک کر آنے سے کئی بچے حادثوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں ابھی گذشتہ ماہ ٹرک سے گر کر دو بچوں کی موت واقع ہوئی جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا تھا۔

ہم نے دیکھا کہ چند بچے پاکستانی سرحد کی جانب کھڑے تھے اور افغانستان گیٹ کی طرف واپس جانا چاہتے تھے۔ اُن سے پوچھا تو پتہ چلا وہ صبح ہی اس طرف پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اب اپنا راشن لے کر واپس سرحد عبور کرنا چاہتے تھے۔

اسی دوران اُس پانچ سالہ بچی سے ہماری ملاقات ہوئی جو چھوٹے بھائی کے ساتھ کھڑی تھی۔ 

 وہاں موجود سکیورٹی حکام سے ہم نے پوچھا کہ ان کو واپس جانے دیں گے تو انہوں نے کہا کہ کبھی بھی کسی بچے کو واپس جانے سے نہیں روکا لیکن دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر سامان چیک کیا جاتا ہے کہ تھیلوں میں خطرناک سامان نہ ہو۔

ہم نے دیکھا کہ سرحد پار کھڑے طالبان جنگجو بھی بچوں کو بار بار بھگا رہے تھے کہ وہ گیٹ پار نہ کریں لیکن بھوک اور ضرورت نے اُن معصوم بچوں کا سارا ڈر ختم کر دیا تھا۔

مقامی دکاندار ثنااللہ نے کہا کہ ہمیں تو نقصان ہوتا ہے کیونکہ ہم پوری قیمت پر ٹیکس ادائیگی کے ساتھ اشیا خریدتے ہیں اور بیچتے ہیں لیکن ان بچوں سے کچھ مقامی افراد سستے داموں بغیر ٹیکس کے اشیا خرید کر فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران کا تدارک کرے اور ان بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ اقدامات کیے جائیں تاکہ فکر معاش میں یہ بچے غیر قانونی طریقہ نہ اپنائیں۔

یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا اس سوال کے جواب میں کسٹم آفیسر جواد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بارڈر مینیجمنٹ کی جو ماہانہ اور ہفتہ وار میٹنگز ہوتی ہیں جس میں پاکستان اور افغانستان کے سکیورٹی افسران موجود ہوتے ہیں ان میں یہ معاملہ اُٹھایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم دونوں اطراف بچوں کی حفاظت اور غیر قانونی آمدورفت کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان