پاکستان کے مسائل کو ہمیشہ ایک ہی زاویے سے دیکھا جاتا ہے اور وہ عمومی بیانیہ یہ ہے کہ ملک کی اصل خرابی سول اور ملٹری کے درمیان طاقت کی کشمکش ہے۔ یہ خلیج یقیناً موجود ہے اور تاریخ میں اس کے منطقی نتائج بھی دکھائی دیتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ پاکستان کے تمام مسائل کی جامع وضاحت کرتی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اصل بحران کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ریاست کے ادارے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔ وسائل کی کمی نہیں، بلکہ ان کی غلط تقسیم اور انتظام اصل رکاوٹ ہے۔
یو این ڈی پی کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کی مالیت سالانہ 17.4 ارب ڈالر ہے۔
یہ مراعات ٹیکس چھوٹ، زرعی سبسڈی، توانائی کے نرخ اور دیگر سہولتوں کی شکل میں مخصوص طبقات کو دی جاتی ہیں۔ یہی وسائل اگر تعلیم، صحت، انصاف، شہری سہولیات کی فراہمی اور روزگار پر لگائے جائیں تو پاکستان کی کہانی مختلف ہو سکتی ہے۔
ماہر معاشیات عاطف میاں کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن سے بڑھ کر نااہلی اور وسائل کی غلط تقسیم اور ان کا غیر مؤثر استعمال ہے۔ ان کے بقول اصل مسئلہ وسائل کی کمیابی نہیں بلکہ غلط ترجیحات ہیں۔ پاکستان اس کی نمایاں مثال ہے جہاں عوامی فلاح کی منصوبہ سازی تو ہوتی ہے مگر عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
پاکستان میں اشرافیائی قبضہ اس انداز سے جڑ پکڑ چکا ہے کہ ریاستی ڈھانچہ اور عوامی وسائل عملاً چند طبقات کے ہاتھوں میں مرتکز ہو گئے ہیں۔ اس اشرافیائی گرفت کا نتیجہ یہ ہے کہ پالیسی سازی عوامی فلاح کی بجائے طاقتور طبقات کے مفاد کے مطابق ڈھلتی ہے۔
ملک میں ترقی یا عوامی فلاح کی منصوبہ سازی اکثر بغیر کسی جامع سوچ اور درست فزیبلٹی کے شروع ہوتی ہے یا محض سیاسی ترجیحات کو مدنظر رکھتے ہوئے لامتناہی وسائل خرچ کیے جاتے ہیں۔ منصوبے ادھورے یا ناکارہ رہ جاتے ہیں یا ان کے ثمرات نیچے تک منتقل نہیں ہوتے۔
بجٹ کی ترجیحات عوامی ضرورت نہیں بلکہ طاقتور طبقات کے مفاد پر طے ہوتی ہیں۔ یوں پاکستان جیسے ملک میں، جہاں 40 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کے قریب یا اس سے نیچے ہے، وسائل اشرافیہ کی سہولت کاری پر خرچ ہوتے ہیں۔
یہ بحران صرف وسائل کی تقسیم تک محدود نہیں۔ ایک اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اہم پالیسی ساز اور انتظامی عہدوں پر اکثر اہلیت، استعداد اور صلاحیت سے عاری افراد بیٹھے ہیں۔ میرٹ اور ٹیکنوکریسی کے فقدان اور پیشہ ورانہ مہارت کی کمی نے ریاست کی انتظامی قابلیت کو مفلوج کر دیا ہے۔
پالیسی سازی کسی تحقیق، تجزیے یا درست اعداد وشمارکی روشنی میں نہیں بلکہ سیاسی، غیر حقیقی اور رسمی پیرائے میں ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم، صحت، روزگار، انصاف، توانائی اور شہری منصوبہ بندی سمیت سبھی شعبے ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان کی سول بیوروکریسی اس بحران کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے اور اس زوال اور ریخت کی واضح عکاسی بھی ہے۔ یہ ڈھانچہ برطانوی نوآبادیاتی ورثہ ہے، جو عوامی خدمت کے لیے نہیں بلکہ عوام پر انتظامی قابو پانے کے لیے بنایا گیا تھا۔
20 ویں صدی کے تقاضوں کے تحت بننے والی یہ مشینری آج 21 ویں صدی کے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی ذمہ دار بھی ہے اور دعوےدار بھی۔ مگر یہ ایک تضاد ہے کہ ایک ایلیٹسٹ ادارہ جس کی تربیت ہی ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کی ہو جدید شہری ریاست کے بدلتے اور بڑھتے ہوئے تقاضے کیسے پورے کرے گا؟
پاکستان میں دفاعی بجٹ اور دفاعی اداروں کے کردار پر بحث اور تنقید ہوتی ہے مگر سول بیوروکریسی کی متروک نفسیات، انتظامی انداز، پیشہ ورانہ قابلیت کی کمی اور غیرضروری مراعات اور ان کے دیدہ دلیری سے استعمال پر کوئی سنجیدہ گفتگو یا مکالمہ ناپید ہے۔ اس بابت سنجیدہ اصلاحات کی کوئی کوشش تو دور کی بات، کوئی مکالمہ یا اتفاق رائے بھی نظر نہیں آتا۔
پاکستانی بیوروکریٹ عام طور پر مختلف شعبوں کے بارے میں عمومی معلومات تو رکھتا ہے، مگر اسے کسی ایک شعبے پر عبور یا گہری مہارت حاصل نہیں ہوتی۔ یہی وہ جڑ ہے جس نے عوامی پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہی عوامی پالیسی کی ناکامی کی جڑ ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعلیم یا صحت کی پالیسی ہو یا موسمیاتی یا توانائی کا مسئلہ، سب کچھ کاغذی منصوبہ بندی یا زبانی جمع خرچ تک محدود رہتا ہے۔
پاکستان کی شہری آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایشیا میں شہری آبادی میں اضافے کی سب سے بلند شرح پاکستان میں ہے۔ اس صورت حال نے ایک نیا متوسط طبقہ پیدا کیا ہے جو تبدیلی چاہتا ہے، مگر ریاستی سٹیٹس کو اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
سیاسی جماعتیں قدیم سوچ کی ترجمان اور روایتی ڈھانچوں میں بندھی ہیں اور بیوروکریسی، جو اس خلا کو پر کر سکتی تھی، خود سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔
سماجی سائنس کے ممتاز محقق حمزہ علوی نے برسوں پہلے نوآبادیاتی ریاست کے کردار پر روشنی ڈالی تھی۔ ان کے مطابق بیوروکریسی عوامی خدمت کی بجائے حکمرانی کے لیے بنی تھی۔ یہی ادارہ جاتی سوچ اور انتظامی ڈھانچہ آج بھی پاکستان میں جوں کا توں برقرار ہے۔ پالیسی سازی میں اثراندازی تو دور، پالیسی فیصلوں پر عملدرآمد بھی محض رسمی عمل بن کے رہ گیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ one size does not fit all۔ مگر پاکستان کی بیوروکریسی آج بھی 20 صدی کے عمومی انتظامی فہم کو ہر شعبے پر لاگو کرنے پر مصر ہے۔ 21 ویں صدی کے مسائل اس رویے کو قبول نہیں کرتے۔ جدید ریاست کو موسمیاتی بحران، ڈیجیٹل معیشت، صحت عامہ، تعلیم، سماجی تحفظ اور خارجہ پالیسی جیسے موضوعات پر باریک اور تخصیصی مہارت چاہیے، جو پاکستان کے پاس نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی پہلو سول ملٹری بیانیے کے شور میں دب جاتا ہے۔ طاقت کی کشمکش اپنی جگہ، لیکن اصل بحران یہ ہے کہ ریاست کے پاس ایسے ادارے، افراد اور مطلوبہ استعداد ہی نہیں جو جدید مسائل کی نزاکتوں کو سمجھ سکیں اور ان پر بہتر پالیسی سازی کر سکیں۔
جب پالیسی ساز بمشکل اہل ہوں، جب میرٹ صرف کلامیہ ہو، اور جب مہارت کو عمومی فہم پر قربان کیا جائے، تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پاکستان میں دہائیوں سے دیکھنے کو مل رہا ہے یعنی ناکام منصوبہ سازی، ضائع ہوتے وسائل اور بڑھتی عوامی مایوسی۔
عالمی بینک کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اداره جاتی نااہلی اور پالیسی سازی کی کمزوری کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کا تقریباً 30 فیصد حصہ مؤثر انداز میں استعمال ہی نہیں ہوتا۔ یہ اعداد و شمار اس بات کو مزید اجاگر کرتے ہیں کہ اصل مسئلہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ ان کے ضیاع کا ہے۔
پاکستان کا کثیرالجہتی بحران اس بات کی صدا ہے کہ نوآبادیاتی ورثہ اور جدید ریاست کے تقاضے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ریاست کے انتظامی ڈھانچے کے پاس وہ باریک فہم، غیر روایتی استعداد اور مہارت نہیں جو آج کے عالمی منظرنامے میں پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ اشرافیہ کی مراعات، وسائل کی غلط تقسیم اور میرٹ کی کمی نے پاکستان کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔
مستقبل کی کوئی بھی سنجیدہ اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب ہم نوآبادیاتی ڈھانچے سے نکل کر سیاسی سوچ اور نظام میں ہر کسی کی شرکت کو ممکن بنائیں، جدید شہری ریاست کی پالیسی سازی کریں، شہری ریاست کے فعال ادارے تشکیل دیں اور تسلیم کریں کہ یہ اشرافیائی ڈھکوسلہ تا دیر نہیں چل پائے گا کیوں کہ یہ مروجہ مہذب انسانی، سیاسی اور سماجی اقدار کے ہی منافی ہے۔ پاکستان کی بقا اور ترقی کا راز اسی تبدیلی میں چھپا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)