پاکستان انڈیا میچ، یہ کیسی جیت تھی جو جیتے وہی ’میدان سے فرار‘

کرکٹ کی تاریخ نے یہ ضرور رقم کرلیا ہے کہ یہ پہلا میچ تھا جب جیتنے والے منہ چھپا کر میدان سے فرار ہوگئے اور ہارنے والے سر اٹھا کر میدان میں جمے رہے۔

انڈین کپتان سوریا کمار یادیوو اور شیوم دوبے پاکستان کے خلاف میچ جیتنے کے بعد پویلین کی جانب لوٹتے ہوئے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

دبئی کی گرم اور مرطوب شام میں ہوا اتنی گرم نہیں تھی جتنے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے دماغ تھے۔ بظاہر پرسکون نظر آنے والے کھلاڑی دل و دماغ میں ہلچل کا شکار تھے۔ ان کے چہروں ہر سمندر کا سکوت نہیں بلکہ صحرا کی تپش نظر آرہی تھی۔

میچ تو کرکٹ کا تھا اور اہتمام بھی سب ایک اچھے میچ کے لیے تھا لیکن پس منظر میں ان جہازوں کی گڑگڑاہٹ تھی ان کے ناقابل شناخت ملبے تھے جو دس مئی کو آسماں سے زمین پر یوں تہہ تیغ ہوئے تھے جیسے کسی خزاں آلود شجر کے پتے ۔۔۔

ایک طرف اس فتح کا غرور تھا اور دوسری طرف اس کا سوگ لیکن دونوں کے درمیاں صدیوں کی اجنبیت اور وہ بھی ایسی کہ شب وروز جن کا ذکر ہوتا تھا وہ لمحوں میں اجسام غیر ہوگئے۔ کسی اور منطقہ کے لوگ جنہیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا تو درکنار آنکھیں دکھانا بھی ناگوار تھا۔

دو کپتان عین میدان کے درمیان ایستادہ اور دائیں بائیں کیمروں کی روشنیاں لیکن پھر بھی ایک دوسرے سے اتنی غیر شناسائی کہ جیسے اندھیروں میں گم ہوچکے ہوں۔

یہ ٹاس نہیں تھا بلکہ ایک اور جنگ کی ابتدا تھی جو اپنی اپنی سرحد پر نہیں بلکہ ایک غیر ملکی سرزمین پر لڑی جارہی تھی، جو شاید ایسی جنگوں کے لیے چشم ما روشن دل ما شاد کی کیفیت لیے تیار رہتی ہے۔

ایشیا کپ کا یہ پہلا میچ تھا جو دنیا بھر میں بغور دیکھا جارہا تھا ورنہ باقی میچوں کی تقدیر میں نہ کشش ہے اور نہ زیادہ تماشائی۔ کسی کو دوسرے میچوں سے اتنی بھی دلچسپی نہیں کہ دوسرے دن اس کا نتیجہ بھی دیکھیں۔ لیکن انڈیا پاکستان کے میچ سے ان کو بہت لگاؤ تھا جو پاکستان ٹیم کے آسٹریلیا آنے پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں۔ رکی پونٹنگ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ آسٹریلیا کو پاکستان کے خلاف کھیل کر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

اتوار کی شام میچ میں وہی کچھ ہواجس کا پہلے سے سب کو یقین تھا، یعنی انڈیا نے پاکستان کو اس قدر آرام سے شکست دی کہ کچھ انڈین کھلاڑیوں کو تو پیڈز بھی نہیں باندھنے پڑے۔ شاید دہلی سے فرید آباد  کا سفر مشکل ہوگا جو محض بیس کلومیٹر ہے لیکن پاکستان کو شکست دینا آسان تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان ٹیم کی بیٹنگ چلی نہ بولنگ!!!  دونوں نے اپنی روایت کا بھرم رکھا اور کسی بھی موقع پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ ہم روایت شکن ہیں۔

صائم ایوب جنہیں کچھ کراچی کے صحافی سعید انور ثانی کہتے ہیں اور کچھ پنجاب کے صحافی منصور اختر ثانی کہتے ہیں اپنی روایت پر قائم رہے اور صفر کا فخریہ اعزاز سینے پر تمغہ کی طرح سجا کر پویلین میں عین اس جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں سارے چلے ہوئے کارتوس براجمان تھے۔ وہ کارتوس جو دس دس سال سے پاکستان کرکٹ کا اثاثہ نما بوجھ ہیں۔

اور پھر صرف صائم کیا ہر ایک نے اس کار خیر میں حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ کسی نے صفر اور کسی نے دو چار رنز کا عطیہ زیادہ دے ڈالا۔

محمد حارث ایک اور کھلاڑی ہیں جن کے قابو میں نہ بیٹ ہے اور نہ ہی دماغ لیکن مسلسل ناکامی کے باوجود سیلیکٹرز نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ انہیں بریڈمین بناکر ہی چھوڑیں گے، چاہے اس کے لیے گھر کو آگ لگ جائے سب کچھ خاکستر ہو جائے۔

بس ایک صاحبزادہ فرحان تھے جنہیں کبھی تیسرے امپائر نے بچایا اور کبھی قسمت نے جو وہ کچھ رنز کرگئے ورنہ انڈیا تو شاید میچ اپنی بیٹنگ میں پاور پلے میں ہی ختم کر جاتا۔

رو پیٹ کر 127 رنز تو بن گئے لیکن بولنگ کے لیے ناکافی تھے۔ ایک تو ناتجربہ کار بولنگ جس میں فقط شاہین آفریدی ہی ایک زہر ہلاہل تھے اور ان پر بہت تکیہ تھا لیکن ان کا جو حشر نوجوان ابھیشیک شرما نے کیا اس کے بعد تو باقی سب کچھ ماند ہی پڑگیا۔

اگر ابھیشیک کچھ دیر اور رک جاتے تو میچ شاید دس اوور سے پہلے ختم ہوجاتا۔

میچ کیوں ہارے اور کیوں نہ جیت سکے اس پر بہت کچھ بات ہو بھی سکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ بیٹنگ کیوں ناکام ہوئی یہ سب کچھ عنوان بحث ہوتا لیکن انڈیا نے پی سی بی کو اس خفت سے بچا لیا۔

وہ جو ایک کڑوی بحث شروع ہونی تھی وہ انڈیا کے غیر اخلاقی طرز عمل کے ملبے تلے کہیں دب گئی  اور سوشل میڈیا نے اپنی شکست کا آپریشن کرنے کے بجائے سارا زور انڈیا پر لگا دیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو اندازہ نہیں تھا کہ انڈیا کا شروع کیا ہوا کھیل ان کو کس طرح  صاف بچا لے جائے گا اس لیے 12 گھنٹے گزرنے کے بعد حکمت عملی کا آغاز ہوا اور بائیکاٹ ایشیا کپ کا ٹرینڈ شروع کرا دیا جس نے اپنی کمزوری کو چھپا کر غیرت و حمیت کا درس شروع کر دیا۔

اب ساری قوم نااہل کھلاڑیوں کے بجائے انڈیا کے پیچھے پڑگئی ہے۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کیونکہ ملک کی عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اپنے نااہلوں سے بعد میں نمٹ لیں گے پہلے پڑوسیوں کے نئے رافیل کو مٹی چٹا دیں۔

لیکن اس سارے قضیے میں سب سے عجیب بات انڈین ٹیم کا کردار تھا جو مبہم اور غیر شفاف تھا۔

جو جیت کے بعد بھی میدان سے ایسے فرار ہوئے کہ پھر نظر نہ آئے۔ جس طرح ایک ایک کھلاڑی کو ڈھونڈ کر ڈریسنگ روم میں بلاکر دروازے بند کیے ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی خوف تھا جو باہر آنے سے روک رہا تھا اور چہرے بھی چھپا رہے تھے۔

پاکستان ٹیم روایات کے مطابق میچ کے خاتمے پر گراؤنڈ میں انتظار کرتی رہ گئی کہ انڈین کھلاڑی ہاتھ ملانے آئیں گے لیکن وہ نہیں آئے بلکہ جب انڈین کپتان نے وننگ شاٹ کھیلا تو سلمان علی آغا ہاتھ ملانے آئے لیکن سوریا کمار یادو ان کو نظر انداز کرکے پویلین کی طرف چل دیئے۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جس نے کھیل کی روح اور اس کے نتیجہ کو پراگندہ کر دیا۔

میچ کے بعد جب اختتامی تقریب منعقد ہوئی تو شکست خوردہ کپتان موجود نہیں تھے۔ انڈین کپتان کے غیر اخلاقی عمل پر وہ احتجاجی طور پر نہیں آئے لیکن اگر وہ نہیں آئے تو پھر شاہین شاہ آفریدی اپنا ایوارڈ وصول کرنے کیوں آئے؟

شاید اس وقت تک پاکستان ہلکا پھلکا احتجاج ریکارڈ کرانا چاہتا تھا لیکن جب معاملہ مزید سنگین ہوا اور ہر طرف سے لعن طعن ہونے لگی تو پی سی بی نے اپنا نزلہ میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ پر ڈالتے ہوئے انہیں تبدیل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی نے ایشیا کرکٹ کونسل کے چیئرمین محسن نقوی سے یہ مطالبہ کیا ہے اور عمل درآمد نہ ہونے کی شکل میں مزید میچ نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

پاکستان کا موقف اصولی بھی ہے اور منطقی بھی !!!

اس موقف کے بعد کیا آئی سی سی مداخلت کرے گی یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے لیکن عالمی تنظیم ہونے کے باعث آئی سی سی کی ذمہ داری ہے کہ کرکٹ کو تباہ اور سیاست کی نظر ہونے سے بچائے۔

اس سارے قضیے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ کرکٹ کی تاریخ نے یہ ضرور رقم کرلیا ہے کہ یہ پہلا میچ تھا جب جیتنے والے منہ چھپا کر میدان سے فرار ہوگئے اور ہارنے والے سر اٹھا کر میدان میں جمے رہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ