چارلی کرک کا قتل اور آن لائن شکار

حال ہی میں امریکہ کے اندر زبان بندی، پکڑ دھکڑ، مخالفین کی سرکوبی اور جمہوریت کے روپ میں فاشزم کا نیا فیشن شروع کیا گیا ہے اور دھڑکا یہ ہے کہ فاشزم کا یہ امریکی ٹرینڈ دیگر فیشن ٹرینڈز کی طرح مقبول نہ ہو جائے۔

پھٹی جینز ہو یا کاؤبوائے بوٹ، پولو شرٹ اور خواتین کے تھری پیس سوٹ۔ اگر گنوانے لگ جاؤں تو ایسے درجنوں فیشن ٹرینڈز ہیں، جو دنیا میں سب سے پہلے امریکہ میں رائج ہوئے اور پھر ساری دنیا نے انہیں اندھا دھند اپنایا۔ 

معاشی پیمانوں میں امریکہ کی ٹکر پر چین اور انڈیا نظر تو آتے ہیں لیکن یہ دونوں ملک عالمی ٹرینڈ سیٹنگ میں امریکہ کے سامنے نِل بٹا نِل ہیں۔

امریکہ کے طاقتوروں نے حال ہی میں امریکہ کے اندر زبان بندی، پکڑ دھکڑ، مخالفین کی سرکوبی اور جمہوریت کے روپ میں فاشزم کا نیا فیشن شروع کیا ہے اور دھڑکا یہ ہے کہ فاشزم کا یہ امریکی ٹرینڈ دیگر فیشن ٹرینڈز کی طرح مقبول نہ ہو جائے۔

امریکہ میں اس وقت صدر ٹرمپ کی سربراہی میں دائیں بازو کی حکومت ہے۔ اس حکومت کے کرتا دھرتا اندر خانے جو کرتے رہیں لیکن ان کا حکومتی موٹو بہت واضح ہے۔ ’ماگا مومنٹ‘ یعنی ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ کی مہم کے بینر تلے ان کے کئی ٹارگٹ ہیں۔ جیسے سفید فام نسل کو طاقتور بنانا، امریکہ کی کرسچن شناخت کو بحال کرنا، سفید فام کے علاوہ ہر رنگ و نسل کو فیصلہ سازی سے باہر کرنا، درجنوں کے حساب سے سامنے آنے والی جنسی شناختوں کو ختم کرنا اور جو کوئی ان تمام ٹارگٹس کے رستے میں آئے اس کا منہ بند کرنا۔

ان تمام مشہور سیاسی نعروں کو مذہب کے تڑکے کے ساتھ پیش کرنے میں نوجوان ایکٹوسٹ، پاڈ کاسٹر اور مباحثوں کے ایکسپرٹ چارلی کرک کا نام بڑا مشہور ہوا۔ چارلی کرک اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے ٹرمپ کی آنکھ کا تارا تھے۔ چارلی کرک غزہ اور فلسطین میں اسرائیلی نسل کشی کو پراپیگنڈہ کہتے تھے اور اسرائیل کے بھی شدید حامی تھے اور اسی لیے نتن یاہو کے بھی پسندیدہ تھے۔

اس سے قبل کہ چارلی کرک اپنی مقبولیت کو مزید چار چاند لگاتے چند روز قبل امریکی ریاست یوٹا میں انہیں گولی مار کر جان سے مار دیا گیا۔ چارلی کے قتل  کے 48 گھنٹوں میں ہی مبینہ قاتل، نوجوان طالب علم ٹائیلر روبنسن، کو گرفتار کر لیا گیا۔

لیکن ان 48 گھنٹوں میں کیا ہوا اور چارلی کے قتل کے بعد سے آج تک امریکہ میں جو ہو رہا ہے، وہ کسی ہیجان سے کم نہیں۔

قتل کے فوری بعد دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کے ساتھ سفید نسل پرست امریکیوں نے بھی سیٹ سنبھالی اور ہر اس شخص کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، جس نے چارلی پر کبھی ماضی میں بھی تنقید کی تھی۔ جب تک مبینہ قاتل گرفتار نہیں ہوا تھا، ہر ناقد کو قاتل ٹھہرایا جا رہا تھا۔

یوٹا یونیورسٹی کے ہر اس طالب علم کی آن لائن شناخت کو چھانا گیا، جسے غزہ کے بچوں سے ہمدردی ہے یا جو تارکین وطن افراد کی ظالمانہ بے دخلی کے خلاف ہے۔ تنقید کرنے والوں کو اکثر ایکس اور دیگر پلیٹ فارمز پر نشانہ بنایا گیا۔ ان کی پرانی ٹویٹس کھنگالی گئیں۔ ان پر ذاتی حملے کیے گئے اور انہیں عوامی طور پر شرمندہ کیا گیا۔

دائیں بازو کے حمایتیوں نے یہیں تک بس نہیں کی۔ یہ آن لائن شکار پر نکل گئے، یعنی وہ افراد جنہوں نے کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر چارلی کرک کے نظریات پر تنقید کی، انہیں نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ صرف کہنا سننا ہو جاتا تو بات اور تھی، یہاں تو کہانی سزاؤں تک جا رہی ہے۔

 اب تک ایسے درجنوں افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جنہوں نے چارلی کی شخصیت یا اس کی موت پر کوئی منفی کمنٹ کیا تھا۔ ان افراد میں امریکی پولیس، حساس اداروں کے اہلکار، یونیورسٹی اور سکولوں کے اساتذہ، ڈاکٹرز، پائلٹس یہاں تک کہ امریکہ کے معروف لیٹ نائٹ کامیڈی شو کے اینکر جمی کمل کو بھی کام سے فارغ کر دیا گیا۔

امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کوئی غیر ملکی بھی اگر تنقید کرے گا تو وہ مستقبل میں امریکہ کا ویزہ بھول جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ کی رپبلکن پارٹی اور اس کے حمایتی اس پر بھی مطمئن نہیں۔ اگلا ہدف ایسے افراد کو سزائیں دینا ہے۔ اس وقت امریکہ کے طاقتور حلقوں پر دائیں بازو کے حمایتیوں کا بڑا پریشر ہے۔ ان کی ڈیمانڈ ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی بھی زاویے سے، کسی بھی زبان میں اور کسی بھی انداز میں ماگا مومنٹ، سفید فام نسل، ٹرمپ یا امریکی پالیسیوں پر تنقید کرے اسے سزا دی جائے۔

اس ہیجانی پریشر کے نتائج ہمیں نظر آ رہے ہیں کہ امریکہ میں فلسطین کی آزادی کی بات کرنا یا غزہ کے بچوں کے لیے آہ بھرنا بھی قابل گرفت جرم ہو سکتا ہے۔

بس یہی وہ نکتہ ہے جو حاصل گفتگو ہے۔ امریکہ طویل عرصے تک اپنے آئین کی پہلی ترمیم پر فخر کرتا رہا ہے، جس میں امریکہ نے یہ طے کر لیا تھا کہ سیاسی تبصرہ، خواہ توہین آمیز ہو یا غلط، اظہار رائے کا آئینی تحفظ رکھتا ہے۔

لیکن اب امریکہ جیسے فری سپیچ ملک کو بھی زبان بندی کی شدت پسندی کا سامنا ہے۔ بس ہماری مشکل یہ ہے کہ اپنے وطن پاکستان میں جہاں یوں بھی اظہار رائے کی آزادی طاقتور لوگوں کو کچھ زیادہ پسند نہیں، وہاں اس نئے نویلے امریکی ٹرینڈ کے فالوورز پلکیں بچھائے بیٹھے ہیں۔ نئی دنیا کے اس نئے ٹرینڈز میں مکالمے کی موت نظر آ رہی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ