سینیما گلی محلے کے عام آدمی سے کٹ گیا

فلم محض تفریح نہیں، سینیما یادداشت ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کون ہیں، کیا جھیلتے ہیں، کس خواب کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ اگر اس میں عام آدمی شامل نہیں تو ہماری اجتماعی کہانی نامکمل اور یاداشت ادھوری ہے۔

1978 میں قائم کیے گئے حیدرآباد کے بمبینو سینیما کے باہر لگے پوسٹر پر اس میں چلنے والے شوز کی درج تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں (رانا مالہی)

اگر آپ کا بچپن گاؤں میں گزرا ہے تو یقیناً اس خوف سے واقف ہوں گے کہ پھیری والے بچوں کو اٹھا لے جاتے ہیں۔

ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا کہ کسی پھیری والے نے واقعی بچہ اٹھایا ہو، مگر یہ خوف ہمیشہ گاؤں کی زندگی کا حصہ رہا اور آج بھی ہے۔

آپ مری چلے جائیں، وہاں درختوں پر لگی پتریوں پر لکھا ملے گا کہ یہاں پھیری لگانا منع ہے۔ پوچھنے پر ایک انکشاف یہ بھی ہو گا کہ پھیری والے اپنے تھیلے میں بچہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔

گلی گلی گھوم کر چھوٹے موٹے سودے بیچنے والوں کے بارے میں یہ خوف کہاں سے جنم آیا؟ ممکن ہے کبھی کہیں ایک آدھ واقعہ پیش آیا ہو، مگر چند اِکا دُکا واقعات اتنی بڑی لہر پیدا نہیں کرتے کہ پنجاب سے لے کر بنگال تک کے ہزاروں دیہات ایک ہی ڈر کی گرفت میں ہوں۔

کلاسک بنگالی فلم ’کابلی والا‘ اس موضوع پر سمجھیے، حرف آخر ہے۔

تپن سنہا نے رابندر ناتھ ٹیگور کے مشہور افسانے پر ایک شاہکار تخلیق کیا۔ فلم کا مرکزی کردار رحمت ہے، ایک افغان میوہ فروش جو کلکتہ کی گلیوں میں کپڑے کا جھولا لٹکائے ہنستے مسکراتے خوبانی اور بادام بیچتا ہے۔

کلکتہ کے بازار میں ہزاروں چہرے روزمرہ کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں۔ لکھنے والے اور اسے فلم میں ڈھالنے والوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک معمولی کردار چنا اور اسے ایک پورے عہد پر پھیلا دیا۔

رحمت کی دوستی ایک ننھی بنگالی بچی منی سے ہوتی ہے۔ منی کی ماں کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کابلی والا کسی دن اس کی بچی کو ساتھ لے کر غائب ہو جائے گا۔

ایک دن بچی چھٹی کے وقت گھر نہیں آتی، اس کے بعد جو ہوا وہ آپ فلم دیکھ کر ہی جان سکتے ہیں۔

ماضی میں شمالی علاقہ جات اور پشاور وغیرہ سے تاجروں کی ایک بڑی تعداد ڈرائی فروٹ بیچنے کلکتہ جا نکلتی تھی۔ وہاں بڑے بڑے گودام بھر جاتے۔ پورے بنگال میں چھوٹی چھوٹی دکانیں کھمبیوں کی طرح اگ آتیں۔ صبح سویرے پھیری والے اپنے تھیلے بھرتے اور دور دراز دیہات میں پھیل جاتے۔

تب بنگال میں افغانوں اور دیگر پشتو بولنے والوں سے متعلق یہ خوف عام تھا کہ یہ بچے اٹھا لے جاتے ہیں۔ ٹیگور نے ایسے ہی پھیری والے ایک کردار کو لے کر افسانہ لکھ دیا۔ تپن سنہا نے 50 کی دہائی میں اس پہ فلم بنا ڈالی۔

کہتے ہیں اس فلم نے بنگالی ماؤں کا پھیری والے کے متعلق سوچنے سمجھنے کا انداز بدل کر رکھ دیا۔

 

تپن سنہا کی یہی فلم بعد میں بمل رائے نے ہندی میں پروڈیوس کی۔ بلراج ساہنی نے کابلی والے کا کردار نبھایا۔ بلراج ساہنی جو بمل دا کی کلاسک ’دو بیگھہ زمین‘ میں رکشہ چلاتے ہیں۔

یہ گلی محلے کے عام کردار، دھول بھرے راستے، چائے کے کھوکے، ہاتھ سے کھینچی جانے والی رکشہ گاڑیاں اور گھِسے ہوئے جوتوں والے لوگ۔ کبھی یہی سٹیج تھا۔ یہی سینیما تھا، مگر دنیا بھر کے سینیما کی طرح بالی وڈ بھی تیزی سے بدلنے لگا۔ عام آدمی اور سینیما کی دنیا میں ایک لکیر کھنچ گئی۔

’شری 420‘ والے راج کپور کو یاد کیجیے۔ ایک بھولا بھالا آوارہ، جیب خالی، آنکھوں میں خواب۔ ’دیوار‘ والا امیتابھ بچن، ایک مزدور کا بیٹا، جو نظام سے لڑ رہا ہے۔

یہ کوئی سپر ہیروز نہیں تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آپ کو ریلوے پلیٹ فارم پر مل جاتے۔ وہ ہم جیسے لگتے تھے، ہماری زبان بولتے تھے، ہمارے زخم سہتے تھے۔

90 کی دہائی میں بالی وڈ نے کروٹ لی اور ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی سینیما پر زیادہ توجہ کھینچنے لگی۔ لبرلائزیشن، کیبل ٹی وی، امپورٹڈ برانڈز۔ شاہ رخ خان اب کسی فیکٹری کے مزدور کا بیٹا نہیں رہا۔ وہ لندن سے پلٹنے والا رومانوی ہیرو تھا۔ کاجول اور رانی مکھرجی ڈیزائنر کپڑے پہنے ایسی یونیورسٹیوں میں نظر آئیں، جو تعلیمی ادارے کم فائیو سٹار ہوٹل زیادہ لگتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ فلمیں مجھے ہرگز پسند نہیں، لیکن میں انہیں برا نہیں کہتا۔ دنیا کے لیے غربت پرانی بات ہو گئی ہے۔ بس اب خواہش اور خوشحالی کی جنگ تھی۔ سٹیشن پر چائے بیچنے والا لڑکا اس تصویر میں فٹ نہیں بیٹھتا تھا۔

2000 کی دہائی میں سنگل سکرین سینیما ہال تیزی سے ختم ہونے لگے۔ یہ وہ سینیما حال تھے جہاں مزدور بیڑی کا کش لگاتے اور فلم دیکھتے ہوئے ہر فکر کو دھویں میں اڑانے کی کوشش کرتے۔

پھر شاپنگ مالز میں نئے ملٹی پلیکس آ گئے۔ ٹکٹ مہنگے ہوئے۔ پاپ کارن اور کوک کی قیمت مزدور کی کئی دن کی دیہاڑی مانگنے لگی۔

90 کی دہائی میں انڈیا کے اندر تقریباً 25000 سنگل سکرین تھیٹر تھے، جو 10 برس کے اندر محض 10 ہزار رہ گئے اور آج زیادہ سے زیادہ پانچ چھ ہزار۔

یہ بھی ساؤتھ والوں کا پاگل پن ہے ورنہ بمبئی میں سنگل سکرین تھیٹر 69 کے بامعنی عدد پر ٹھہرے ہیں۔

’سلم ڈاگ ملینیئر‘ ہو ’لنچ باکس،‘ یا پھر ’گلی بوائے،‘ کہیں نہ کہیں گلی محلے کی کہانیاں دیکھنے کو مل جاتی ہے، لیکن یہ استثنیٰ ہیں۔ اصل رجحان کی نمائندگی نہیں۔

گلی محلہ مائنس ہونے کی ایک بڑی وجہ بالی وڈ کی عالمی برانڈ بننے کی خواہش ہے۔ بالی وڈ اب نیٹ فلکس، کانز اور دبئی کے باکس آفس کے خواب دیکھتا ہے۔ غریب مزدوروں کے ٹکٹ اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، اس لیے وہ اپنی شبیہہ کو چمکدار رکھتا ہے۔ غربت نہیں بکتی، چمک دمک بکتی ہے۔ اس لیے چائے والا، رکشہ ڈرائیور یا بے روزگار گریجویٹ سکرپٹ سے کاٹ کے الگ پھینک دیے گئے۔

دوسری وجہ سیاست اور ریاست ہے۔ کبھی فلمیں کرپشن، غربت اور بے روزگاری کو کھل کر دکھاتی تھیں۔ طاقت کو گریبان سے پکڑنے کا جنوں پیدا کرتی تھیں۔ آج وہ کاٹ ختم ہو گئی۔ اب محب وطن بلاک بسٹر، کھیلوں کے ہیرو کی سوانح حیات یا مذہبی کہانیاں کا دور ہے۔

فلم محض تفریح نہیں، سینیما یادداشت ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کون ہیں، کیا جھیلتے ہیں، کس خواب کے پیچھے دوڑتے ہیں۔

جیسے پرانی تصویریں البم میں قید ہو کر وقت کے لمس کو محفوظ رکھتی ہیں، ویسے ہی سینیما ہماری خوشیوں، دکھوں، خواہشوں اور خوف کو قید کرتا ہے۔

اگر اس میں عام آدمی شامل نہیں تو ہماری اجتماعی کہانی نامکمل اور یاداشت ادھوری ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ