ایشوریہ، ابھیشیک، کرن جوہر ڈیپ فیک کے خلاف عدالتوں میں

ان بالی وڈ شخصیات نے نئی دہلی کی ہائی کورٹ میں ویب سائٹس، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز کو ان کے نام، چہرے اور آوازیں بلا اجازت استعمال کرنے سے روکنے کی استدعا کی ہے۔

بالی وڈ کے اداکار ابھیشیک بچن اپنی اہلیہ ایشوریہ رائے بچن کے ساتھ چار جون، 2022 کو ابو ظہبی میں انٹرنیشنل انڈین فلم اکیڈمی (آئیفا) ایوارڈز کے 22ویں ایڈیشن کی تقریب میں شریک ہیں (رائن لم / اے ایف پی)

انڈین فلمی صنعت کی شخصیات ایشوریہ رائے بچن، ابھیشیک بچن اور کرن جوہر نے اپنی شخصیت کے حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ ان حقوق میں ذاتی تصاویر اور آواز پر اختیار شامل ہے۔

ڈیپ فیک مواد ان شخصیات کے پیشے کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کی ہائی کورٹ میں دائر کردہ مقدمات میں ان اداکاروں اور فلم ساز نے ویب سائٹس، سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز کو ان کے نام، چہرے اور آوازیں بلا اجازت استعمال کرنے سے روکنے کی استدعا کی ہے۔

ان درخواستوں کی اصل وجہ مشہور شخصیات کے کلچر میں بڑھتا ہوا وہ بحران ہے جو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ اور غیر قانونی مواد کی وجہ سے پیدا ہوا اور جس نے فلمی ستاروں کی پہچان کو ایسی عام چیز بنا دیا جسے کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔

ڈیپ فیک ایسے آڈیو ویژول مواد کو کہتے ہیں جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار جاتا ہے اور اکثر ایک جعلی ’چہرہ‘ کسی اصل ویڈیو پر لگا کر کے ایسا منظر تخلیق جاتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

اخبار  ہندوستان ٹائمز کے مطابق فلم ’برائیڈ اینڈ پریجوڈس‘ کی سٹار ایشوریہ رائے بچن نے نو ستمبر کو درخواست دائر کی، جب ان کے وکلا نے متعدد ویب سائٹس کی نشاندہی کی جو ان کی اے آئی کی مدد سے بنائی گئی فحش اور ’قربت کے لمحات کی مکمل طور پر غیر حقیقی تصاویر‘ شائع کر رہی تھیں اور ساتھ ہی غیر قانونی مواد بیچ رہی تھیں۔

ان کے وکیل سندیپ سیٹھی نے کہا ’ان کا نام اور شباہت کسی کی جنسی خواہشات پوری کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ یہ بہت افسوس ناک ہے۔‘ 

ایشوریہ رائے کے شوہر ابھیشیک بچن نے دو دن بعد اسی نوعیت کا مقدمہ دائر کیا، جس میں درجنوں ویب سائٹس کا ذکر کیا گیا جہاں ان کے نام اور تصاویر کو ان مصنوعات کی توثیق کے لیے استعمال کیا گیا جن کی تشہیر پر انہوں نے کبھی رضامندی ظاہر نہیں کی۔

ایک ہفتے بعد فلم ساز کرن جوہر بھی عدالت پہنچ گئے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کی تصاویر، آواز اور عرفی نام ’کے جے او‘ سے بنائی گئی میمز اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ مواد کا استعمال رکوایا جائے جسے وہ توہین آمیز کاروباری استحصال قرار دیتے ہیں۔

عدالت نے ایشوریہ رائے بچن اور کرن جوہر کو عارضی ریلیف دیتے ہوئے ان کے نام، شکل یا شخصیت کو استعمال کرتے ہوئے مصنوعات یا ڈیجیٹل مواد بنانے، شیئر کرنے یا بیچنے پر پابندی لگا دی۔

اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی ہدایت کی کہ وہ اس قسم کا کوئی بھی مواد فوری طور پر ہٹا دیں۔

جسٹس تیجس کریا نے ایشوریہ رائے بچن کی درخواست پر اپنے حکم میں لکھا ’جب کسی مشہور شخصیت کی شناخت اس کی مرضی یا اجازت کے بغیر استعمال کی جاتی ہے، تو یہ نہ صرف اس شخص کو مالی سطح پر نقصان پہنچا سکتی ہے، بلکہ اس کے باعزت زندگی گزارنے کے حق کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔‘

جسٹس تیجس کریا نے کہا کہ ایسے معاملات میں جہاں کسی شخص کے ’شخصی حقوق‘ کی خلاف ورزی ہو رہی ہو، عدالتیں ان سے آنکھیں نہیں پھیر سکتیں اور متاثرہ فریقوں کو تحفظ فراہم کریں گی تاکہ انہیں اس غیر قانونی استعمال سے ہونے والے کسی بھی نقصان سے بچایا جا سکے۔

شخصی حقوق، جنہیں اکثر ’تشہیر کا حق‘ بھی کہا جاتا ہے، کسی بھی شخص کا وہ قانونی حق ہے جس کے تحت وہ اپنے نام، تصویر، آواز یا چہرے کے تجارتی استعمال پر اختیار رکھ سکتا ہے۔

عام طور پر یہ حقوق عوامی شخصیات کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ اپنی شناخت کے استعمال پر کنٹرول رکھیں اور دوسروں کو ان کی اجازت کے بغیر اس سے فائدہ اٹھانے سے روک سکیں۔

انڈیا میں شخصیات کے حقوق کی حفاظت کے لیے کوئی ایک مخصوص قانون نہیں، لیکن وہاں کی عدالتوں نے آئین کے آرٹیکل 21 میں موجود پرائیویسی کے قوانین، ’پاسنگ آف‘ قوانین اور دانش ورانہ املاک کے قواعد کو ملا کر تحفظ فراہم کیا ہے۔

اس کے برعکس، امریکہ میں ریاست کی سطح پر ’پبلسٹی کے حقوق‘ کے واضح قوانین موجود ہیں جو کسی شخص کی شناخت کو جائیداد کا درجہ دیتے ہیں۔

برطانیہ میں اس حوالے سے پرانے قوانین، جیسے پاسنگ آف (کسی دوسرے برانڈ کے نام کا استعمال) اور کاپی رائٹ، پر انحصار کیا جاتا ہے۔

اگرچہ وہاں بھی ڈیپ فیکس اور مصنوعی ذہانت سے بننے والے مواد جیسے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک الگ قانون بنانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔

بالی وڈ کی شخصیات کی جانب سے شخصی حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی جنگ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب  مشہور انڈین شخصیات کو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے۔

آج کل سستے اور آسانی سے دستیاب ٹولز کی مدد سے کوئی بھی شخص منٹوں میں کسی بھی سٹار کا چہرہ کسی ویڈیو پر لگا سکتا ہے یا اس کی آواز کی بالکل اصلی جیسی ریکارڈنگ تیار کر سکتا ہے۔

گذشتہ سال، بالی وڈ اداکارہ رشمیکا مندننا کی ایک ڈیپ فیک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ سیاہ لباس میں نظر آ رہی تھیں۔

یہ ویڈیو سامنے آنے پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر راجیو چندرشیکھر کو باقاعدہ انتباہ جاری کرنا پڑا۔

اسی طرح اپریل 2024 میں اداکاروں رنویر سنگھ اور عامر خان کو ایک سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہوئے دکھایا گیا۔

یہ ڈیپ فیک ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، جس پر دونوں اداکاروں نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔

ایسے ہی جعلی مواد کو، جن میں کترینہ کیف اور عالیہ بھٹ جیسے اداکار شامل ہیں، جوئے والی ایپس اور کرپٹو کرنسی سکیموں کی جھوٹی توثیق پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس طرح سادہ لوح مداحوں کو دھوکا دیا گیا۔

2023 میں کرکٹ لیجنڈ سچن تندولکر بھی ایک ڈیپ فیک ویڈیو کا نشانہ بنے جس میں وہ ایک آن لائن گیمنگ ایپ کی توثیق کرتے اور یہ دعویٰ کرتے دکھائے گئے کہ ان کی بیٹی کو اس سے مالی فائدہ پہنچتا ہے۔

اسی سال انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی روایتی گجراتی رقص گربہ کرتے ہوئے ایک ویڈیو وائرل ہوئی، جس کے بعد انہوں نے ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ’تشویش ناک‘ غلط استعمال پر بیان جاری کیا۔

مودی نے خبردار کیا کہ ’لوگ جو دیکھتے ہیں اسے سچ مان کر جال میں پھنس سکتے ہیں اور یہ ہمیں ایک بڑے بحران کی طرف لے جائے گا۔‘ 

جہاں بالی وڈ ستاروں کو جنون کی حد تک پسند کیا جاتا ہے، ان کی یہ شہرت غیر قانونی مصنوعات کے ایک بہت بڑے کاروبار کو فروغ دے رہی ہے۔

پورے ملک میں چھوٹی دکانوں، انسٹاگرام اور وٹس ایپ جیسی ایپس پر بالی وڈ اداکاروں کی تصویروں کے خلاف ضابطہ پوسٹرز، ٹی شرٹس، کی چینز اور موبائل کیسز کا ملنا عام ہے۔

اگرچہ باقاعدہ لائسنس یافتہ مصنوعات بھی موجود ہیں، جو عموماً ہٹ فلموں یا کرکٹ ٹیموں سے جڑی ہوتی ہیں، لیکن قوانین کے فقدان کی وجہ سے اس مارکیٹ پر غیر قانونی فروخت کنندگان کا راج ہے۔

انڈیا میں مقامی دکانوں کی دیواروں پر صرف بالی وڈ ستاروں کے پوسٹرز ہی نہیں لگے ہوتے، بلکہ ایک مشہور مذاق یہ بھی ہے کہ انڈیا میں تقریباً ہر نائی کی دکان پر زین ملک یا ڈیوڈ بیکہم کی کم از کم ایک تصویر ضرور لگی ہوتی ہے، جو اکثر پرانی اور مدھم ہو چکی ہوتی ہے، لیکن اس کے ذریعے ’جدید بین الاقوامی ہیئر کٹ‘ کی تشہیر کی جاتی ہے، چاہے وہ تصویر کئی دہائیاں پرانی ہی کیوں نہ ہو۔

انڈیا کی بہت سی مشہور شخصیات کے لیے یہ مسئلہ نیا نہیں۔ امیتابھ بچن نے، جو ابھیشیک بچن کے والد اور بالی وڈ کے سب سے بڑے سٹارز میں سے ایک ہیں، 2022 میں ایک تاریخی مقدمہ جیتا، جب دہلی ہائی کورٹ نے بہت سی کمپنیوں اور ایپس کو ان کا نام، آواز اور تصویر بغیر اجازت استعمال کرنے سے روک دیا۔

اس کے فوراً بعد اداکار جیکی شروف اور سلم ڈاگ ملینیئر کے ستارے انیل کپور نے بھی اسی طرح کے احکامات کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔

انیل کپور نے تو اپنے مشہور نعرے ’جھکاس‘ (شاندار) کے لیے بھی تحفظ حاصل کر لیا۔ 

گذشتہ سال گلوکار اریجیت سنگھ نے بھی بمبئی ہائی کورٹ سے عارضی ریلیف حاصل کیا، جب انہوں نے درخواست دائر کی کہ مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارمز ان کی اجازت کے بغیر ان کی آواز، ان کے انداز اور ان کی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کی نقل تیار کرنے اور انہیں استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔

اگرچہ ان فیصلوں نے موجودہ قانونی جنگوں کی بنیاد رکھی، لیکن کسی نے بھی ڈیپ فیکس سے پیدا ہونے والے خطرے کی اس بڑی سطح کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔

اوبھان اینڈ ایسوسی ایٹس کے منیجنگ شراکت دار ایسنس اوبھان نے مالیاتی خبروں کی ویب سائٹ منی کنٹرول کو بتایا ’مصنوعی ذہانت، وائرل مواد کے پلیٹ فارمز، اور بین الاقوامی ای کامرس میں تیزی سے ترقی نے غیر قانونی استعمال کے لیے بے پناہ مواقع پیدا کر دیے ہیں، جن میں جعلی اشتہارات سے لے کر ملتی جلتی مصنوعات تک سب کچھ شامل ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی فلم