وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ مظاہروں کے دوران ہونے والے ناخوشگوار واقعات پر جمعرات کو گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی شفاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بدھ کو پولیس کے مطابق خوراک، بجلی اور دیگر خدمات پر سبسڈی کے لیے عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مظاہروں کے دوران جھڑپوں میں تین پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد جان سے چلے گئے اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں مظاہرین کو پولیس پر مکے برساتے، لاٹھیوں سے پیٹتے اور پتھراؤ کرتے دیکھا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق فورسز نے جوابی فائرنگ نہیں کی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے مزید جانی نقصان سے بچنے کے لیے ردعمل سے گریز کیا۔
یہ تازہ ترین جھڑپیں مظفرآباد میں ایک امن ریلی پر عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان کے حملے کے دو دن بعد ہوئی ہیں، جس میں ایک شخص جان سے چلا گیا تھا اور دو درجن سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ حکام کے مطابق زیادہ تر رہائشیوں نے اتحاد کی ہڑتال کی کال کو نظر انداز کر دیا اور ساتھ ہی مظاہرین پر الزام عائد کیا کہ وہ اپنے مطالبات کو دبانے کے لیے تشدد کا سہارا لے رہے ہیں۔
اس صورت حال پر جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں وزیراعظم نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے، تاہم مظاہرین امن عامہ کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔‘
وزیراعظم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ہدایت کی کہ وہ مظاہرین کے ساتھ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔ ’عوامی جذبات کا احترام یقینی بنائیں اور کسی بھی قسم کی غیر ضروری سختی سے اجتناب برتیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔‘
مظفر آباد میں مقامی پولیس افسر محمد افضل نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا کہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب بندوقوں اور لاٹھیوں سے مسلح مظاہرین نے سڑکیں بلاک کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے سے روکے جانے پر پورے کشمیر میں تعینات پولیس افسران پر حملہ کر دیا۔
انہوں نے تین پولیس افسران اور ایک شہری کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم آٹھ اہلکار لاٹھیوں اور پتھروں کے وار کے نتیجے میں شدید زخمی ہوئے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں اموات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مظاہرین کا تعلق عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چوہدری انوار الحق نے کہا کہ ان کی انتظامیہ نے مظاہرین کے 90 فیصد مطالبات پورے کر لیے ہیں، جن میں بجلی کے نرخوں میں کمی، مقامی حکومتوں میں اصلاحات اور مظاہرین کے خلاف درج مقدمات کی واپسی شامل ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ دو مطالبات، جن میں وزرا کی تعداد کو کم کرنا اور کشمیری پناہ گزین کے لیے مخصوص نشستوں کو ختم کرنا شامل ہے، صرف قانون سازی کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔
انوار الحق نے کہا کہ وہ تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، ساتھ ہی انہوں نے عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو خبردار کیا کہ وہ انتشار کو روک دے اور بات چیت کی طرف واپس آ جائے۔
حکومتی سطح پر اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے مذاکراتی کمیٹی میں توسیع کرتے ہوئے اس میں سینیٹر رانا ثنا اللہ، وفاقی وزرا سردار یوسف، احسن اقبال، سابق صدر جموں و کشمیر مسعود خان اور قمر زمان کائرہ کو شامل کیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مذاکراتی کمیٹی کو فوراً مظفرآباد جانے اور مسائل کا فوری اور دیرپا حل نکالنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی کے اراکین اور قیادت سے بھی اپیل کی کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے تعاون کرے۔
وزیراعظم نے وطن واپسی پر مذاکرات کے عمل کی نگرانی کا اعلان بھی کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ کے وزیر طارق فضل چوہدری نے کہا کہ حکومت اب بھی تمام مسائل کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے اتحاد کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’اس جنت نما وادی کو میدان جنگ میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔‘
دوسری جانب جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے وزیراعظم شہباز شریف کی مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’بامقصد بات چیت کے لیے مواصلاتی بلیک آؤٹ کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔‘
کور کمیٹی رکن سردار عمر نذیر کشمیری کی جانب سے جاری بیان میں واضح کیا گیا: ’ہماری تحریک مکمل طور پر پرامن اور آئینی ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم ہتھیار نہیں اٹھائیں گے، لیکن بین الاقوامی برادری کی خاموشی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہونے والوں کو مزید ہمت دے گی اور عوام کے غصے میں اضافہ کر دے گی۔‘