کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس کی ایک پرسکون گلی میں واقع کیفے 1947 میں ہر دن مشرقِ وسطیٰ کے کسی ملک کا ذائقہ دستیاب ہوتا ہے۔
یہ کیفے کسی پیشہ ور شیف کا نہیں، بلکہ سعودی ایئرلائن کی سابق فلائٹ اٹینڈنٹ آسیہ رضوی کے خواب اور ان کے بیٹے کی امید سے جڑی کہانی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آسیہ نے اپنی زندگی کے 15 سال فضائی ملازمت میں گزارے، جس کے بعد وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ یہ ریستوران چلا رہی ہیں، جس میں ان کے شوہر، بیٹی اور دو بیٹے بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ یہ ریستوران انہوں نے صرف ذائقوں کی محبت میں نہیں بلکہ اپنے 12 سالہ بیٹے شبر علی کے لیے کھولا، جنہیں ڈاؤن سنڈروم ہے۔
آسیہ نے بتایا کہ ان کے بیٹے کو بیکنگ کا شوق ہے اور وہ اچھے کھانے کے شوقین ہونے کے ساتھ اچھا کھانا بنانے کے بھی شوقین ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ وہ ایک دن بہترین بیکر بنیں۔
انہوں نے بتایا: ’میرا مقصد صرف کاروبار کرنا نہیں تھا، بلکہ اپنے بیٹے کے لیے ایک ایسا محفوظ، باعزت اور بااختیار ماحول پیداکرنا تھا جہاں وہ سیکھ سکے، کام کر سکے اور خود مختار بن سکے۔‘
’کیفے 1947 بائے ایس اینڈ آر‘کا نام محض ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ آسیہ کے بیٹے شبّر اور ان کے ایک رشتے دار کے بیٹے رضا کے ناموں کے ابتدائی حروف کا امتزاج ہے۔ رضا آٹزم کا شکار ہیں۔
اور چونکہ سال 1947 میں پاکستان وجود میں آیا تھا، لہذا اسی سال کی یاد دہانی اس کیفے کی روح میں بسائی گئی ہے۔
فلائٹ اٹینڈنٹ کی حیثیت سے آسیہ نے سعودی عرب، لبنان، فلسطین، مصر اور دیگر عرب ممالک کے کلچر اور کھانوں کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا کے 51 مختلف ممالک کی خواتین ساتھیوں کے ساتھ وہ ہاسٹل میں ہوتی تھی اور ملازمت کے 15 سالوں کے دوران انہوں نے ہر ساتھی سے ان کے ملک کے ثقافتی کھانوں کی تراکیب نہ صرف سیکھیں بلکہ ان کے ساتھ کھانے پکانے کے تجربات، ذائقوں اور روایات کا بھی تبادلہ کرتی رہیں۔
اس کیفے کی خاص بات یہاں کا ’کیوزین آف دی ڈے‘ ہے، یعنی ہر دن کسی ایک ملک کا نیا ذائقہ یہاں دستیاب ہوتا ہے۔
ان کے کیفے کے ہفتہ وار متغیر مینو میں پیر کو افغانی کھانے، منگل کو چینی، بدھ کو پاکستانی، جمعرات کو مغلئی، جمعے کو فلسطینی اور ہفتہ و اتوار کو مڈل ایسٹرن و فیوژن ڈشز شامل ہیں۔
ہر جمعے کو کیفے 1947 میں فلسطینی کھانوں کی خوشبو پھیلتی ہے، جہاں مسخن، مقلوبہ اور دیگر روایتی پکوان یہاں آنے والوں کو پیش کیے جاتے ہیں۔
آسیہ کے مطابق: ’فلسطین کے عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ہم نے ان کے قومی ذائقوں کو اپنے مینیو کا حصہ بنایا ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ لوگ کھانے کے ذریعے ان کی جدوجہد کو یاد رکھیں اور محسوس کریں۔‘
مزید برآں فلسطینی پکوانوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی ایک خاص آمدنی انسانی فلاحی کاموں کے لیے وقف کی جاتی ہے، تاکہ اس حمایت کا عملی پہلو بھی سامنے آ سکے۔
کیفے کا ماحول بھی عام ریستورانوں سے بالکل مختلف ہے۔ دیواروں پر لگے ہوئے پرانے نقشے، بھاری لکڑی کی کرسیاں، میزوں پر دسترخوان اور ایک چھوٹا سا کتابوں کا گوشہ، سب مل کر ایک نہایت پرسکون ماحول فراہم کرتے ہیں۔