آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی روکنے کے لیے شروع کیے گئے ای چالان سسٹم کے حوالے سے کہا ہے کہ چالان کے روایتی نظام میں اکثر شفافیت کا مسئلہ رہتا ہے۔
کراچی میں ٹریفک حکام کا کہنا ہے کہ ای چالان سسٹم کے ذریعے پہلے ہی دن چند گھنٹوں کے دوران سوا کروڑ روپے مالیت کے 2662 چالان کیے گئے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے مطابق گذشتہ تین روز کے دوران 10 ہزار سے زائد چالان کیے گئے جن میں ڈی آئی جی ٹریفک پیر محمد شاہ سمیت 11 سرکاری گاڑیوں کو بھی قانون کی خلاف ورزی پر چھوٹ نہیں دی گئی۔
شہر میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کی نگرانی کیمروں سے کی جا رہی ہے اور ای چالان کے نفاذ کے بعد شہریوں کی جانب سے ملا جلا ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔
سماجی رابطے کی مختلف ویب سائٹس پر شہری فیس لیس ای چالان پر برہم دکھائی دے رہے ہیں جہاں کسی نے جرمانے کی زیادہ رقم پر سوال اٹھایا تو کسی نے کہا کہ پہلے شہر کی سڑکیں بنائیں اور پھر چالان کریں۔
اس حوالے سے آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کراچی جیسے بڑے اور پیچیدہ شہر میں جب تک پولیسنگ میں ٹیکنالوجی کو شامل نہیں کیا جائے گا، نظم و ضبط قائم کرنا ممکن نہیں۔‘
غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ ’رواں سال کے آغاز میں ٹریفک حادثات میں تشویش ناک اضافہ ہوا۔ جنوری میں 89 اموات ہوئیں، فروری میں 94 اور مارچ میں بھی 94 لوگ جان سے گئے۔ تاہم، اب یہ تعداد کم ہو کر 36 تک آ گئی ہے، جو ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کی ایک واضح مثال ہے۔
’ہم نے تیز رفتاری کے چالان ان گاڑیوں پر کیے ہیں جن میں ٹریکرز نصب ہیں۔ حکومت نے قانون کے مطابق تمام ہیوی وہیکلز کے لیے ٹریکر لگانا لازمی قرار دیا ہے، اور ہم نے اپنے سسٹم کو ان ٹریکرز کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اگر کسی گاڑی کی رفتار مقررہ حد سے 30 کلومیٹر فی گھنٹہ زیادہ ہو جاتی ہے تو سسٹم خودکار طور پر ہمیں اطلاع دیتا ہے کہ اس مقام پر اس گاڑی نے تیز رفتاری کی ہے۔‘
دوسری جانب انڈپینڈنٹ اردو نے ای چالان پر رائے جاننے کے لیے شہریوں سے بھی گفتگو کی۔
شہری آن لائن کیب سروس چلانے والے محمد مختیار نے ای چالان کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’موٹر سائیکل سوار اکثر غلط سمت سے نکلتے ہیں اور رکشہ ڈرائیوروں کا بھی یہی حال ہے جس کی وجہ سے وہ خود بھی حادثے کا شکار ہونے سے بال بال بچیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ای چالان کا نظام بہت پہلے متعارف کروا دیا جانا چاہیے تھا۔
تاہم آن لائن موٹر سائیکل چلانے والے محمد صابر ای چالان سے خوش نہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ جرمانے کی رقم زیادہ ہے۔
محمد صابر کا کہنا ہے کہ ’اکثر مسافروں کو اپنی منزل پر جلدی پہنچنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے مجبوراً تیز رفتاری سے موٹر سائیکل چلانی پڑتی ہے۔ اگر ان کا چالان ہوا تو جرمانے کی رقم جو پانچ ہزار روپے ہے، وہ ان کی جیب پر بھاری پڑے گی۔‘
ایک اور شہر ی نے کہا کہ ای چالان کا اقدام اچھا ہے لیکن یہ قانون سب پر نافذ ہونا چاہیے۔ چاہے کوئی سندھ حکومت کا اہلکار ہو یا قانون نافذ کرنے والے ادارے کا بندہ، اتنے مہنگے چالان کا نفاذ صرف غریب عوام پر نہیں ہونا چاہیے۔
شہریوں کے اس رس عمل پر آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے کہا کہ ’جب چالان روایتی انداز میں کیے جاتے ہیں تو اس میں شفافیت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ عوام کا یہ کہنا بجا ہے کہ بعض اوقات رشوت یا ذاتی اثر و رسوخ کا عمل دخل ہوتا ہے۔
’اسی لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ ایسا نظام متعارف کروایا جائے جس میں انسانی مداخلت کم سے کم ہو اور فیصلے خودکار طریقے سے، مکمل شفافیت کے ساتھ ہوں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اسی طرح کے خودکار نظام رائج ہیں، اور ہم نے اسی ٹیکنالوجی کو یہاں بہتر انداز میں نافذ کیا ہے۔‘
آئی سندھ غلام نبی نے ٹریفک کے بنیادی ڈھانچے پر اٹھنے والے سوال کا جواب بھی دیا اور کہا کہ ’انفراسٹرکچر کی بہتری میں کوئی شک نہیں کہ وہ انتہائی ضروری ہے۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے اور اس پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لیکن اس کا براہ راست تعلق اس نظام سے نہیں جو ہم نے ٹریفک مینجمنٹ اور پولیسنگ کے لیے متعارف کروایا ہے۔ میں اس بحث میں جانا نہیں چاہتا، لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ دونوں الگ نوعیت کے معاملات ہیں۔
جرمانے کی زیادہ رقم پر آئی جی سندھ نے کہا کہ ’حال ہی میں چالان کی فیس میں معمولی اضافہ کیا گیا ہے تاکہ اس کا حقیقی اثر ہو۔ دنیا بھر میں یہ تصور موجود ہے کہ جرمانے اتنے مؤثر ہونے چاہییں کہ وہ لوگوں کو دوبارہ خلاف ورزی کرنے سے روکیں۔ جب کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ قانون شکنی مہنگی پڑ سکتی ہے، تو وہ خود بخود محتاط ہو جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے منظور شدہ قانون کے تحت مختلف کیٹیگریز بھی رکھی گئی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنا چالان فوراً ادا کر دیتا ہے تو اسے آدھی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
’لیکن اگر وہ تاخیر کرے یا انکار کرے، تو اس پر جرمانہ بڑھ جاتا ہے۔ اس طرح نظام میں ایک طرح کا سزا و جزا کا میکانزم شامل کر دیا گیا ہے، جو شہریوں کو قانون کی پاسداری کی ترغیب دیتا ہے۔‘
چالان سے قبل ای ٹکٹ جاری کیا جائے گا
ترجمان ٹریفک پولیس کے مطابق، جب کسی گاڑی کی خلاف ورزی کیمرے میں ریکارڈ ہوگی تو شواہد کی بنیاد پر ایک ای ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔ شہری کو چالان چیلنج کرنے کے لیے 10 دن کا وقت دیا جائے گا۔
ٹکٹ موصول ہونے کے 24 گھنٹے کے اندر شہری ہیلپ لائن 1915 پر رابطہ کر کے یا سہولت سینٹر جا کر اپنی شکایت درج کرا سکتا ہے۔ بعد ازاں، ڈیوٹی افسر شواہد کی روشنی میں حتمی فیصلہ کرے گا۔
دیگر ٹریفک قوانین خلاف ورزیوں کے جرمانے
موٹر سائیکل کی رفتار 60 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہونے پر پانچ ہزار، ہیلمٹ نہ پہننے پر 10 ہزار، خطرناک ڈرائیونگ پر 50 ہزار، سگنل توڑنے پر 5 تا 50 ہزار، اور غلط سمت میں موٹر سائیکل چلانے پر 25 ہزار جرمانہ ہو گا۔
کار اور جیپ کی اوور سپیڈ پر پانچ تا 15 ہزار، رانگ وے پر 30 تا 50 ہزار، بغیر لائسنس 25 تا 50 ہزار، کالے شیشے 25 ہزار، سگنل خلاف ورزی پر پانچ تا 15 ہزار روپے جرمانہ ہو گا۔
ہیوی گاڑیوں کی مقرر حد سے زیادہ تیز رفتاری پر 20 ہزار، اوور لوڈنگ پر 50 ہزار، رانگ وے پر ائک لاکھ، بغیر فٹنس یا انشورنس 10 تا 25 ہزار اور غیر رجسٹرڈ گاڑی پر 25 ہزار جرمانہ ہو گا۔ ایمبولینس گاڑی کو کو راستہ نہ دینے، لائٹس استعمال نہ کرنے، یا لین توڑنے پر 5 تا 20 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔
 
            

 
           
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
                     
	             
	             
	             
	             
	             
                     
                     
                     
                    