1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی اس کے افغانستان کے ساتھ تعلقات غیر یقینی کا شکار رہے ہیں۔ افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوامِ متحدہ میں شمولیت کی مخالفت کی اور اس کی بنیادی وجہ وہ پشتون علاقے تھے جو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف تقسیم ہو گئے تھے۔
کابل نے پاکستان کے اندر موجود پشتون اور بلوچ آبادیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا، جس نے ایک ایسی دشمنی کی بنیاد رکھی، جو آج تک جاری ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو دو بڑے ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور 1947 سے لے کر 1979 تک ہے۔ اس دوران افغانستان میں نسبتاً امن اور استحکام رہا۔ اس دوران کابل اکثر اسلام آباد کو بین الاقوامی سطح پر چیلنج کرتا رہا اور پاکستان کے اندر پشتون اور بلوچ قوم پرست تحریکوں کی حمایت کرتا رہا۔ افغانستان کی خارجہ پالیسی کا مقصد پاکستان کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا اور خود کو ایک خودمختار علاقائی طاقت کے طور پر منوانا تھا۔ اس دور میں افغانستان کا پلڑا بھاری تھا۔
1970 کی دہائی میں صدر داؤد خان کی حکومت کے مخالف اسلامی تنظیموں کی حمایت کے بعد طاقت کا توازن بدل گیا۔ 1979 میں سوویت حملے کے بعد پاکستان افغان ’مجاہدین‘ کے لیے مرکز بن گیا، ایک ایسا کردار جس نے اسلام آباد کو مذہبی گروہوں سے گہرے تعلقات استوار کرنے کا موقع دیا۔
اگلی چار دہائیوں میں پاکستان نے تین افغان حکومتوں کو گرانے میں اہم کردار ادا کیا:
- ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت 1992 میں مجاہدین کے ہاتھوں گری، جو پاکستان کے حمایت یافتہ تھے۔
- برہان الدین ربانی کی حکومت کو 1996 میں پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان نے ہٹا دیا۔
- اشرف غنی کی حکومت 2021 میں ایک بار پھر پاکستان کی سفارتی اور لاجسٹک مدد کے ساتھ طالبان کے ہاتھوں ختم ہوئی۔
تاہم پاکستان کی سب سے بڑی کمزوری افغان عوام کا رویہ رہا ہے۔ کوئی بھی افغان حکومت، حتیٰ کہ وہ بھی جو اسلام آباد کے قریب رہی ہو، پاکستان کے ساتھ طویل المدتی وفاداری برقرار نہیں رکھ سکی۔ اقتدار میں آنے کے بعد افغان رہنما اکثر پاکستانی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے قومی خودمختاری پر زور دیتے ہیں، کیونکہ افغان عوام کی اکثریت پاکستان کے بارے میں بداعتمادی رکھتی ہے۔
پاکستان نے دہائیوں تک تقریباً 50 لاکھ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کی، جن میں سے کئی نے کابل کی حکومت کے خلاف مجاہدین کے طور پر لڑائی میں حصہ لیا۔ اسلام آباد سمجھتا تھا کہ یہ آبادی ہمیشہ پاکستان نواز رہے گی، مگر یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ جب یہ پناہ گزین واپس افغانستان گئے تو انہوں نے پاکستانی مفادات کے بجائے افغان قومی مقاصد کو ترجیح دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موجودہ تناؤ کے ماحول میں تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ 2001 کے بعد طالبان جنگجو پاکستان میں پناہ گزین ہوئے، منظم ہوئے، اور 2021 میں دوبارہ کابل پر قابض ہو گئے۔ مگر ایک بار پھر، اسلام آباد اور کابل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اس بار سرحدی جھڑپوں، فضائی حملوں اور ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، جن کے بعد اب دونوں ممالک اب ایک خطرناک تصادم کی دہلیز پر کھڑے ہیں، جہاں ہر ایک کے پاس اپنی طاقتیں اور کمزوریاں ہیں۔
اس نئی کشمکش میں پاکستان کو فوجی برتری حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کی نویں بڑی فوج ہے، جو جدید فضائیہ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے۔ وہ افغانستان کے اندر گہرائی تک حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، حتیٰ کہ اعلیٰ طالبان رہنماؤں کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے پاس معاشی دباؤ کی طاقت موجود ہے۔ وہ تجارتی راستے بند کر کے پاکستان افغانستان کی کمزور معیشت پر بھاری دباؤ ڈال سکتا ہے اور اس وقت وہ سرحدیں بند کر کے یہی کر رہا ہے۔
پاکستان کے پاس ایک اور کارڈ پناہ گزینوں کی واپسی ہے، جسے وہ طالبان حکومت پر سیاسی دباؤ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان سفارتی سرگرمیوں کے ذریعے عالمی سطح پر طالبان حکومت کو منفی انداز میں پیش کر سکتا ہے اور اسے خطے کے لیے سکیورٹی خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
پاکستان کے پاس ایک اور راستہ پراکسی نیٹ ورکس استعمال کرنے کا ہے۔ اس کے مالی اور انٹیلی جنس وسائل موجود ہیں جن سے وہ افغانستان میں نئی مخالف طالبان تحریکوں کو ابھار سکتا ہے، تاہم یہ مہنگا اور خطرناک آپشن ہو گا۔
دوسری طرف افغانستان کے پاس بھی کچھ ایسے وسائل موجود ہیں جن کی مدد سے وہ پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ طالبان دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ 20 سال تک امریکہ جیسے سپر پاور سے لڑ کر بھی قائم و دائم رہے اور آخرکار دوبارہ کابل پر قابض ہو گئے۔ اب وہ ایک کمزور ہمسائے پاکستان کا سامنا کر رہے ہیں۔
امریکہ کے خلاف جدوجہد کے دور امریکہ بہت دور تھا اس لیے اس کے خلاف طالبان جوابی کارروائی نہیں کر سکتے تھے، مگر امریکہ کے برعکس پاکستان ایک ہمسایہ ملک ہے، جس کے اندر دراندازی، سرحد پار حملے اور داخلی شورش کا خطرہ موجود ہے۔
اس کے علاوہ طالبان کے پاس ٹی ٹی پی کارڈ موجود ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نظریاتی طور پر افغان طالبان سے منسلک ہے اور پاکستان کے اندر سرحدی علاقوں میں سرگرم ہے۔ کسی بھی بڑے تصادم کی صورت میں اسلام آباد کو دو محاذوں پر لڑنا پڑ سکتا ہے، ڈیورنڈ لائن کے ساتھ اور اندرونی قبائلی علاقوں میں۔
پاکستان کے فضائی حملوں سے اگرچہ افغان شہری مارے گئے ہیں، مگر طالبان کے عزم پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ الٹا ان حملوں نے عوامی ہمدردی طالبان کے حق میں بڑھا دی ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے طویل عرصے بعد پہلی بار افغان عوام، حتیٰ کہ وہ جو طالبان کے مخالف ہیں، پاکستان کے خلاف اپنی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں، کیونکہ وہ اسلام آباد کے حملوں کو افغان خودمختاری پر حملہ سمجھتے ہیں۔
پاکستان کا سٹریٹیجک مخمصہ
پاکستان ایک ہی وقت میں افغانستان اور انڈیا دونوں کے ساتھ جنگ برداشت نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب طالبان بھی ایسے ہمسائے نہیں جو دباؤ میں آ جائیں۔ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر کسی کے لیے بھی فیصلہ کن کامیابی ممکن نہیں۔
ایک سابق افغان سفارت کار کے مطابق: ’پاکستان امریکہ کی طرح فضائی جنگ نہیں لڑ سکتا۔ امریکہ کے پاس عالمی حمایت تھی اور اس نے شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا، مگر پھر بھی طالبان حکومت کو گرا دیا۔‘
ان کے مطابق پاکستان کے حملے، جو عام شہریوں کو مارتے ہیں، زیادہ ظالمانہ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ اگر جنگ چھڑ گئی تو افغانستان ضرور نقصان اٹھائے گا، مگر ممکن ہے کہ پورے خطے کا نقشہ بدل جائے، اور پاکستان مزید خطرات سے دوچار ہو جائے۔‘
پاکستان اور افغانستان کے درمیان رقابت ایک بار پھر عروج پر ہے۔ پاکستان کے پاس قلیل مدتی فوجی برتری ضرور ہے، لیکن افغانستان کی جغرافیائی، نظریاتی اور عوامی مزاحمت اسے ایک سخت جان حریف بناتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے کابل میں حکومتیں گرانے میں تو کامیابی حاصل کی، مگر کسی کو کنٹرول کرنے میں نہیں۔
آج دونوں ممالک ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں پرانے حربے اب پرانے نتائج نہیں دے رہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔