کراچی میں فیوچر سمٹ کے نویں ایڈیشن سے خطاب کرتے ہوئے آج وزیرِ خزانہ نے کہا ہے کہ پاکستان کو برآمدات کا مرکز بنانا ہے نیز عالمی ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی معاشی بہتری کو تسلیم کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پائیدار معاشی ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں اور ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے معیشت میں شفافیت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، رواں سال نولاکھ نئے فائلرز کا اضافہ اس کی واضح مثال ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ عالمی معیشت میں استحکام کے لیے نجی شعبے کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور پیداواری بنیاد پر ترقی ہی پائیدار اقتصادی استحکام کی ضمانت ہے۔
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ میکرو اکنامک استحکام کوئی آخری منزل نہیں بلکہ مضبوط سرمایہ کاری کے دروازے کھولنے کا ذریعہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ غیر ملکی کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی پاکستان کی معیشت پر اعتماد کی علامت ہے، جو جاری اصلاحاتی اقدامات کے مثبت نتائج کو ظاہر کرتی ہے۔
ماحولیاتی حوالے سے دوران خطاب ان کا کہنا تھا کہ میں بالکل واضح ہوں، جب تک ہم دو وجودی مسائل (آبادی اور ماحولیاتی تبدیلی) کو حل نہیں کرتے، ہم اس ملک کی صلاحیت کو حقیقت میں نہیں بدل سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی مسائل وقتی نوعیت کے ہیں اور چند برسوں میں حل ہو جائیں گے، لیکن ماحولیاتی تبدیلی اور آبادی کے مسائل وجودی ہیں اور اب فوری توجہ کے مستحق ہیں۔
گندم اور چینی کی ڈی ریگولیشن کی ضرورت
ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے واضح کیا کہ حکومت گندم اور چینی کی ڈی ریگولیشن کے معاملے پر بالکل واضح موقف رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری، وزیراعظم اور کابینہ کی رائے یہ ہے کہ حکومت کو جہاں جہاں ممکن ہو، وہاں سے اپنا کردار ختم کر دینا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر خزانہ نے بتایا کہ اگرچہ گندم میں سٹریٹجک ریزرو کا عنصر موجود ہے کیونکہ یہ ایک بنیادی خوراک ہے، لیکن دیگر صورت میں اسے بھی ڈی ریگولیٹ کر دینا چاہیے جب کہ ان دونوں پالیسیوں پر کام جاری ہے۔
گزشتہ ماہ حکومت نے ’ویٹ پالیسی 2025-26: مارکیٹ پر مبنی نظام کی جانب منتقلی‘ کے نام سے ایک پالیسی متعارف کروائی تھی، جس میں سیلاب سے متاثرہ کسانوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت مقرر کی گئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بار سیلاب کے باعث ایک خاص صورتِ حال پیدا ہوئی تھی، ورنہ پالیسی سازوں نے بالکل درست فیصلہ کیا تھا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ ڈی ریگولیشن مکمل عمل ہونا چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ویلیو چین کے ایک حصے کو آزاد کر دیا جائے اور دوسرے پر کنٹرول برقرار رکھا جائے، حکومت کو پورے نظام سے باہر نکلنا ہوگا، اور ہم اسی سمت جا رہے ہیں۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر خزانہ نے یہ بھی بتایا کہ ہمیں اس سال چاول کی برآمدات میں نقصان ضرور ہوا ہے کیونکہ پنجاب میں اس کی فصلوں کو نقصان پہنچا، تاہم زرعی برآمدات اب بھی 3 سے 4 ارب ڈالر کے درمیان ہیں۔