چار کمپنیوں پر امریکی پابندی، برآمدات پر سیاسی کنٹرول مسترد کرتے ہیں: پاکستان

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ملک کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے روابط کے الزام میں امریکہ کی طرف سے کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے سے متعلق آج ایک بیان جاری کیا ہے۔

23 مارچ، 2019 کو یوم پاکستان کے موقعے پر پریڈ میں شاہین دوئم میزائل کی نمائش کی جا رہی ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں پر امریکی پابندی کے حوالے سے دفتر خارجہ نے ہفتے کو اپنے ردعمل میں کہا کہ برآمدات پر کنٹرول کا سیاسی استعمال مسترد کرتے ہیں۔

ہفتے کو امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں پر پابندی لگا دی۔

جس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ  نے ملک کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے روابط کے الزام میں امریکی فیصلے سے متعلق ذرائع ابلاغ کے سوالات کے جواب میں آج ایک بیان جاری کیا ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’کوئی ثبوت دیے بغیر ماضی میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام سے روابط کے الزامات کے تحت کمپنیوں کی ایسی ہی نشاندہی کی گئی۔‘

ترجمان کے مطابق: ’اگرچہ ہم امریکہ کے تازہ ترین اقدامات کی تفصیلات سے واقف نہیں ہیں لیکن ماضی میں ہم نے ایسی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں جب صرف شک کی بنیاد پر (کمپنیوں کی) کی فہرست بنائی گئی یا یہاں تک کہ جب بیان کردہ سامان کسی کنٹرول لسٹ میں نہیں تھا لیکن اسے وسیع تر دفعات کے تحت حساس سمجھا گیا۔‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے کئی بار نشاندہی کی ہے کہ ایسی اشیا کو قانونی طور پر سول تجارتی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس لیے برآمدی کنٹرول کے من مانے اطلاق سے بچنا ضروری ہے۔ سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ٹیکنالوجی تک رسائی یقینی بنانے کی خاطر معروضی نظام کے لیے متعلقہ فریقوں کے درمیان تبادلہ خیال کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان حتمی صارفین کے لیے میکانزم پر بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار رہا ہے تاکہ ایکسپورٹ کنٹرولز کے امتیازی اطلاق سے جائز کمرشل صارفین کو نقصان نہ پہنچے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان ایکسپورٹ کنٹرول کے سیاسی استعمال کو مسترد کرتا ہے۔

’یہ حقیقت ہے کہ یہی دائرہ اختیار جو جوہری عدم پھیلاؤ پر سخت کنٹرول کا دعویٰ کرتا ہے،  نے کچھ ممالک کے لیے جدید فوجی ٹیکنالوجی کے لیے اجازت کی شرط ختم کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ علاقائی عدم توازن بڑھ رہا ہے جب کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے مقاصد کمزور ہوئے ہیں۔‘

’امریکی پابندی ایک لحاظ سے انڈیا کی مدد ہے‘

جامعہ کراچی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے سامان کی فراہمی کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کے معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھ سکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار ندا حسین سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا تھا کہ ’ایک تو یہ کہ بڑی طاقت ہونے کی حیثیت سے امریکہ نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ معاہدے کے تحت ایٹمی عدم پھیلاؤ کو یقینی بنائے۔ یہ امریکہ کی پالیسی ہے۔ امریکی قوانین بھی موجود ہیں کہ دنیا میں جو ملک افقی ایٹمی پھیلاؤ میں ملوث ہیں انہیں روکا جا سکے تاکہ یہ پھیلاؤ نہ ہونے دیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر امریکہ اور چین کے درمیان جو مقابلہ جاری ہے تو اس صورت حال میں چین کو پیغام دیا گیا ہے کہ وہ خاص طور پر اپنے فوجی اتحادیوں کو ایسا سامان فراہم نہ کرے جس سے ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ ہو۔‘

’خاص طور پر جنوبی ایشیا میں اگر چین اور پاکستان کا جوہری میزائل ٹیکنالوجی میں تعاون ہو رہا ہے جو ظاہر ہے انڈیا کے لیے خطرہ ہے۔ ایک لحاظ سے یہ انڈیا کے لیے بھی مدد ہے کہ چین کو روکا جائے۔‘

ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا ہے کہ ’اس سب سے زیادہ اہم اس کا وقت ہے۔ ایک طرف تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آئی ہے لیکن دوسری طرف اس طرح کا اقدام پاکستان کے لیے ایک پیغام ہے کہ انہیں (امریکہ) کو پاکستان جوہری پروگرام کے حوالے سے تشویش ہے۔‘

پاکستانی میزائل پروگرام میں مدد کا الزام، چار عالمی کمپنیوں پر امریکی پابندی

واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا کہ ان پابندیوں کا شکار بننے والی کمپنیوں میں سے تین کا تعلق چین اور ایک کا بیلاروس سے ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا: ’امریکہ (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں) کے عدم  پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس کو روک کر عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت آج ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذمہ دار چار اداروں کو نامزد کر رہے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ان اداروں میں سے تین کا تعلق عوامی جمہوریہ چین میں اور ایک بیلاروس سے ہے، جنہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرامز بشمول اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کے لیے آلات فراہم کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان کے مطابق: ’جن اداروں کو ہم آج نامزد کر رہے ہیں ان میں بیلاروس کا منسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ، چینی کمپنیاں لانگ شیان ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ، تیانجن کریٹیئو سورس انٹرنیشنل ٹریڈ کمپنی لمیٹڈ اور گرینپیکٹ کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں جو ایسی سرگرمیوں یا لین دین میں ملوث پائی گئیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ یا ان کی ترسیل کے ذرائع میں عملی طور پر تعاون کیا یا جن سے عملی طور پر تعاون کرنے کا خطرہ لاحق ہے جس میں پاکستان کی طرف سے ایسی اشیا کی تیاری، نقل و حمل، منتقلی یا استعمال، حاصل کرنے یا رکھنے کی کوششیں شامل ہیں۔‘

امریکی محکمہ خارجہ نے الزام لگایا کہ بیلاروس میں قائم منسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو خصوصی گاڑیوں کی چیسس فراہم کرنے کے لیے کام کیا۔

اسی طرح چینی کمپنی لانگ شیان ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ پر الزام ہے کہ اس نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو متعلقہ سامان فراہم کیا۔

ایک اور چینی کمپنی تیانجن کریٹیئو سورس انٹرنیشنل ٹریڈ کمپنی لمیٹڈ پر امریکہ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام میں متعلقہ آلات فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔

چین ہی کی تیسری کمپنی گرینپیکٹ کمپنی لمیٹڈ پر الزام لگایا کہ اس نے پاکستان کے خلائی ادارے سپارکو کے ساتھ مل کر بڑے قطر والی راکٹ موٹروں کی جانچ کے لیے آلات کی فراہمی کے لیے کام کیا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں نامزد کمپنیوں اور ان سے وابستہ افراد کی امریکہ میں تمام پراپرٹیز اور مفادات کو بلاک کر دیا گیا ہے اور ان کی اطلاع محکمہ خزانہ کے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (او پی اے سی) کو دی جانی چاہیے۔

بیان کے مطابق: ’تمام افراد یا ادارے جو ان پابندی کی شکار کمپنیوں میں بالواسطہ یا بالواسطہ50 فیصد یا اس سے زیادہ سے زیادہ شراکت رکھتے ہیں کو بھی بلاک کر دیا جائے گا۔

’امریکی افراد کی طرف سے یا امریکہ کے اندر تمام لین دین، جو نامزد یا دیگر پابندی کے شکار افراد کی پراپرٹی میں شامل ہوں، ممنوع ہے جب تک کہ او ایف اے سی نے عام یا مخصوص لائسنس جاری کیا ہو یا اس کی جانب سے انہیں مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو۔‘

کسی بھی بلاک شخص کے لیے یا ان کے مفاد کے لیے فنڈز، سامان یا سروسز کی فراہمی پر پابندی بھی شامل ہے۔ تاہم محکمہ خارجہ نے کہا کہ ان پابندیوں کا حتمی مقصد سزا دینا نہیں بلکہ رویے میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔

ان پابندیوں پر حکومت پاکستان کا ردعمل جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے دفتر خارجہ سے رابطہ کیا ہے، تاہم ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ حکومتی ردعمل ملنے پر اسے خبر میں شامل کر دیا جائے گا۔

امریکہ نے گذشتہ سال اکتوبر میں تین چینی کمپنیوں پر پابند عائد کی تھی۔ ان کمپنیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے تحت میزائلوں کی تیاری سے متعلقہ آلات فراہم کیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان