لاپتہ خاتون کو جنوں نے غائب نہیں کیا، بلکہ انسانی سمگلنگ کا کیس: آئی جی پنجاب

لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران آئی جی پنجاب نے بتایا کہ فوزیہ بی بی کے لاپتہ ہونے کا تعلق جنات سے نہیں بلکہ انسانی سمگلنگ سے ہو سکتا ہے۔

13 اکتوبر، 2020 کو لاہور میں ایک پولیس وین کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

صوبہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) ڈاکٹر عثمان انور نے جمعرات کو ایک لاپتہ خاتون کے کیس میں عدالت کو بتایا کہ مذکورہ خاتون کو جنات نے اغوا نہیں کیا بلکہ یہ انسانی سمگلنگ کا معاملہ لگتا ہے۔

لاہور میں لاپتہ ہونے والی خاتون فوزیہ بی بی کی والدہ حمیداں بی بی نے تھانہ کاہنہ میں 25 مئی، 2019 کو اپنی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا۔ 

مقدمے میں فوزیہ کے خاوند اور ساس پر اغوا کا الزام عائد کیا گیا، لیکن سسرال نے لڑکی کو مبینہ طور پر جنات کے لے جانے کی وضاحت دی۔ 

دو سال گزرنے کے باوجود فوزیہ کے نہ ملنے پر حمیداں بی بی نے عدالت سے رجوع کر رکھا تھا۔ 

لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے اس کیس میں آئی جی پنجاب کو آج تیسری مرتبہ طلب کیا ہوا تھا۔ 

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ڈاکٹر عثمان سے استفسار کیا کہ اس کیس میں کیا پیش رفت ہوئی اور رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی؟ 

اس پر آئی جی نے جواب دیا کہ ’یہ معاملہ جنات کے اغوا کے غائب کرنے کا نہیں بلکہ انسانی اسمگلنگ کا ہے۔ اس حوالے سے کئی مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ’ہم نے راجن پور سمیت دیگر علاقوں میں پولیس کو الرٹ کیا ہوا ہے۔ دوبارہ سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر آگاہی کے مسیجز جائیں گے۔ 

’دوسرے صوبوں کی پولیس کو بھی الرٹ کیا ہوا ہے۔ ان کو اطلاع دے دی گئی ہے۔ مغویہ کے رشتے داروں کو چیک کیا جا رہا ہے۔‘

ڈاکٹر عثمان نے عدالت کو مزید بتایا کہ مغویہ تین ماہ کا بچہ اپنی نند کے پاس چھوڑ کر گئی تھی۔ ’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بچی خود کہیں سیٹل ہو چکی ہے یا قتل کردی گئی ہے۔‘

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’پہلے کہا گیا اس بچی کو جن لے گئے، یہ وہی کیس ہے ناں؟‘ اس پر آئی جی نے جواب دیا ’جی، یہ وہی کیس ہے، مغویہ نے خود سامان پیک کیا تھا۔‘ 

عدالت نے پوچھا کہ ’گھر والے کہاں تھے جب (خاتون) سامان پیک کر رہی تھی؟‘ ڈاکٹر عثمان نے جواب دیا ’رات کے اوقات میں بچی گھر سے گئی۔‘

عدالت نے قرار دیا کہ یہ نیا فیکٹ سامنے آیا ہے کہ خاتون نے اپنا سامان خود پیک کیا لہذا آپ کو گھر سے تفتیش شروع کرنی ہوگی وہاں سے چیزیں آپ کو ملیں گی۔ 

چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا ’اس کیس میں مجھے مثبت پیش رفت چاہیے۔‘ کیس کی آئندہ سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مغوی کی والدہ حمیداں بی بی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے 2013 میں اپنی بیٹی فوزیہ کی شادی کاہنہ کے رہائشی محمد رمضان سے کی، لیکن چھ سال تک اولاد نہ ہونے پر رمضان اور ساس کبرا بی بی اسے تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ 

’وہ کئی بار روٹھ کر گھر آئی مگر اس کا خاوند منت سماجت کر کے دوبارہ لے جاتا۔‘

حیمداں کے بقول ’میری بیٹی کے ہاں اغوا سے چار ماہ پہلے بیٹا پیدا ہوا اور وہ سسرال میں رہ رہی تھی۔ 18 مئی، 2019 کو رمضان کے مہینے میں صبح 10 بجے میرے داماد نے ہمیں اطلاع دی کہ فوزیہ کو سحری کے وقت تین بجے جنات نے غائب کر دیا۔ 

’میرے داماد نے اطلاع کے ساتھ چار ماہ کا بچہ بھی میرے حوالے کر دیا۔ میں اپنے تینوں بیٹوں کو ساتھ لے کر بیٹی کے سسرال پہنچی اور اپنے طور پر واقعے کی تصدیق چاہی، لیکن مجھے یقین ہوگیا کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ 

’انہوں نے میری بیٹی کو قتل کردیا یا قتل کی نیت سے کہیں چھپایا ہوا ہے، لہٰذا ہم وہاں لڑائی جھگڑا کرنے کی بجائے واپس آ گئے۔ 

’ہم نے گھر میں مشاورت کے بعد متعلقہ تھانے میں رمضان اور اس کی والدہ کے خلاف لڑکی کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا تھا۔‘

حمیداں کا کہنا ہے کہ ’مقدمہ درج کرنے کے بعد پولیس نے کارروائی شروع کی لیکن پولیس کو بھی ملزمان نے یہی بیان دیا کہ اسے جنات نے غائب کر دیا۔ 

’پولیس کارروائی کے دو سال بعد بھی جب بیٹی کا پتہ نہ چلا تو میں نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔‘

آئی جی پنجاب نے اگرچہ عدالت میں یقین دہانی کرائی ہے کہ چاروں صوبوں میں اور گینگز سے بھی چیک کیا جا رہا ہے، اگر کچھ مہلت دی جائے تو سراغ لگا لیا جائے گا۔

اس سے قبل پولیس نے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان رضا کی سربراہی میں سپیشل انویسٹیگیشن ٹیم تشکیل دے کر تحقیقات بھی کیں۔ 

لڑکی کے خاوند اور ساس سے تفتیش کی گئی، رشتہ داروں کے فون ریکارڈ، سی ٹی وی فوٹیجز سے بھی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن پولیس تحقیقات میں پتا چلا کہ لاپتہ خاتون کے پاس نہ موبائل فون ہے اور نہ ہی اس نے ابھی تک کسی سے کوئی رابطہ کیا۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان