چھاتی کا کینسر: آگاہی اور احتیاط کی ضرورت

چھاتی کا کینسر پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن بروقت تشخیص، باقاعدہ معائنہ اور صحت مند طرزِ زندگی سے اس سے بچاؤ ممکن ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں چھاتی کا کینسر تیزی پھیل رہا ہے تاہم بروقت تشخیص، باقاعدہ معائنہ اور صحت مند طرزِ زندگی سے اس سے بچاؤ ممکن ہے (اینواتو)

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کراچی کے ایک سکول میں پڑھا کرتی تھی۔ ساتویں جماعت کا نتیجہ آیا تھا اور ہمارے خاندان میں اس دن غم کی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ میری تائی چھاتی کے کینسر کے موذی مرض کے ہاتھوں اپنی جان گنوا بیٹھی تھیں۔

کینسر کا نام میں نے پہلی بار تبھی سنا تھا۔ اب، جب کہ اس واقعے کو 40 سال گزر چکے ہیں، سائنس نے ترقی کر لی ہے اور امراض سے آگاہی کے دن یا مہینے منائے جاتے ہیں تو یہ بات واضح ہوئی کہ چھاتی کا کینسر پاکستان میں عام ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق تقریباً 35 ہزار سے زائد پاکستانی خواتین ہر سال اس مرض کی وجہ سے جان گنوا بیٹھتی ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ آج سے 40 برس قبل ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کینسر کے ماہر ڈاکٹر (آنکالوجسٹ) بھی نہیں تھے۔

ڈاکٹر روفیہ سومرو نے، جو کراچی کے لیاقت نیشنل ہسپتال میں بریسٹ کینسر سرجن ہیں، پاکستانی خواتین میں تیزی سے پھیلتے ہوئے بریسٹ کینسر کے حوالے سے بتایا ’بریسٹ کینسر دنیا بھر میں عام ہے اور پاکستان میں بھی اس کی شرح ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں نوجوان خواتین میں اس مرض کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہے۔
 
’المیہ یہ ہے کہ یہاں اکثر کیس ایڈوانس سٹیج پر سامنے آتے ہیں۔ مغرب میں 50 فیصد تشخیص اوائل سٹیج پر ہو جاتی ہے جبکہ پاکستان میں شاید صرف سات فیصد کیسز وقت پر پکڑے جا پاتے ہیں۔‘

ہمارے دیہی علاقوں میں اس مرض سے متعلق کئی تواہمات بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے اکثر تشخیص بہت دیر سے ہوتی ہے۔

اگر مستقل مزاجی سے سکریننگ کی جائے، قومی سطح پر کینسر کے مریضوں کا اندراج ہو اور تشخیص کے بعد باقاعدہ علاج پر توجہ دی جائے تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں اس حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں ہو رہا۔ اکتوبر میں حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ این جی اوز اور صحت عامہ سے منسلک خیراتی اداروں کے ساتھ مل کر بریسٹ کینسر سے متعلق مہم چلائے۔

دیہی علاقوں میں سرکاری سطح پر صحت عامہ کے عملے کو تربیت دی جانی چاہیے تاکہ وہ خواتین کا باقاعدہ معائنہ اور مرض کی نشاندہی کر سکیں۔

ہمارے روزمرہ کے طرز زندگی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لائف اسٹائل کوچ اور نیوٹریشنسٹ ڈاکٹر سادیہ افضل کہتی ہیں ’مینوپاز کے دوران اور بعد میں وزن کا بڑھ جانا اور غیر صحت مند خوراک پاکستان میں خواتین میں بریسٹ کینسر کے ابھرنے کی بڑی وجہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’یاد رکھیں فائبر والی غذا، ذہنی دباؤ پر قابو اور ورزش وہ عوامل ہیں جو اس موذی مرض کے بڑھنے میں کمی لا سکتے ہیں۔‘

روزمرہ زندگی میں صحت مند معمول اپنانا اور غذا میں ڈبہ بند کھانے، تلی ہوئی اشیا، میدے اور چینی کو خارج کرنا خواتین کی صحت کو سنوار سکتا ہے۔

عالمی تحقیق کے مطابق پاکستان میں خواتین میں ورزش کا کم رجحان بھی بریسٹ کینسر کی بڑی وجہ ہے۔

تولیدی عوامل اور طرز زندگی کے دیگر خطرات بھی اس مرض میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایسے میں مثبت ذہن کے ساتھ حالات کا سامنا کرنا بھی شفا کے امکانات بڑھاتا ہے۔

ڈاکٹر سومرو کہتی ہیں 40 سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین کو ہر دوسال بعد میموگرام (چھاتی کا ٹیسٹ) کروانا چاہیے تاکہ مرض کو اوائل سٹیج میں پکڑا جا سکے۔

میموگرام کینسر کی نشاندہی کر سکتا ہے اور اگر کینسر کا خدشہ ظاہر ہو تو بائیوپسی سے خوف زدہ نہ ہوں۔ یہ جسم کے مخصوص حصے کا ٹیسٹ ہوتا ہے جو کینسر کی حتمی یا ابتدائی حالت معلوم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر سومرو کے بقول ’جب مریض کو مرض کی حتمی تشخیص بتائی جاتی ہے تو وہ خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ان کی زندگی ختم ہو گئی اور نسوانیت متاثر ہو گئی۔ اکثر مریض اس سے انکاری ہو جاتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ اگر مرض اوائل سٹیج میں ہو تو چھاتی نہیں نکالی جاتی لیکن اگر مرض پھیل چکا ہو تو سرجری ضروری ہو جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بروقت تشخیص بریسٹ کینسر کو قابل علاج بنا سکتی ہے، لیکن خواتین میں اس پر بات کرنے کا رجحان کم ہے۔ اس لیے صرف اکتوبر نہیں بلکہ سال بھر آگاہی کی مہم چلانی چاہیے۔

خواتین کو باقاعدہ اپنا جسمانی معائنہ کرنا چاہیے تاکہ کسی گٹھلی، ساخت میں تبدیلی یا کسی قسم کے اخراج کا وقت پر پتہ چل سکے۔ وقت پر توجہ اور علاج پاکستان میں ممکن ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درج ذیل نکات پر سرکاری سطح پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو پاکستان کی نوجوان اور درمیانی عمر کی خواتین بریسٹ کینسر کے ہاتھوں جان نہیں گنوائیں گی:

  • از خود معائنہ
  • سکریننگ اور باقاعدہ طبی معائنہ
  • فرسودہ نظریات کو ترک کرنا
  • سماجی و ثقافتی سطح پر مرض کو تسلیم کرنا
  • سکول اور کالج کی سطح پر لڑکیوں کو تعلیم دینا
  • آگاہی کے دائرے میں گھر کے مردوں کو شامل کرنا
  • میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی کی مہمات چلانا بھی اہم ہے۔

بریسٹ کینسر کی مریضہ نازیہ عادل کے بقول ’تقریباً 10 سال ہونے کو ہیں، دوائیں موجود ہیں، کچھ نہ کچھ روزمرہ کے درد اور اداس کرنے والے دن و رات بھی ہیں، لیکن اپنے پیاروں کے تعاون سے میں اپنی صحت کی یہ جنگ روز جیتتی ہوں اور ہر نیا سورج اللہ کے شکر اور نئی امید کے ساتھ دیکھتی ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین