پاکستان میں چھاتی کا کینسر وبا کی طرح پھیل رہا ہے: رپورٹ

پاکستانی خواتین میں چھاتی کا کینسر بےحد تیزی سے پھیل رہا ہے اور اگلے چند برس میں اس میں مزید تیزی آنے کا خدشہ ہے، لیکن اس سے نمٹنے کے لیے کوئی حکومتی پالیسی موجود نہیں ہے۔

(اے ایف پی)

ماہرین کے مطابق پاکستانی خواتین میں چھاتی کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ ہے اور آنے والے برسوں میں اس میں تیزی سے اضافے کا خدشہ ہے۔

بی ایم سی پبلک ہیلتھ نامی طبی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے کینسر کی شرح میں 2020 کے آخر تک 23.1 فیصد اضافے کی توقع ہے، جب کہ یہی شرح 2025 میں بڑھ کر 60.7 فیصد ہو جائے گی۔

پنک اکتوبر نامی تنظیم، جو رواں مہینے چھاتی کے کینسر کی آگاہی کی مہم چلا رہی ہے، کے مطابق بھی پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون کو چھاتی کا کینسر ہونے کا خدشہ لاحق ہے اور یہاں لڑکیوں اور نوجوان خواتین میں چھاتی کے کینسر کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈی ایم پارکن اور ان کے ساتھیوں کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر لاکھ میں 52 خواتین کو چھاتی کا سرطان لاحق ہو جاتا ہے، جب کہ یہی شرح اسرائیل کو چھوڑ کر پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔

یہی نہیں بلکہ صوبہ سندھ سے ملحقہ بھارتی سرحد کی دوسری طرف دیہی علاقوں میں یہی شرح نو فیصد کے قریب ہے، جب کہ ممبئی جیسے شہر، جو کراچی سے بہت مشابہ ہے، یہی شرح صرف 28 فیصد ہے۔

ایک اور خطرناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں دوسرے ملکوں کی نسبت خواتین کو کم عمری ہی میں یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔

اس کے باوجود پاکستان میں اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی ترتیب نہیں دی گئی اور نہ ہی لوگوں میں آگاہی کے لیے بڑے پیمانے پر کوئی مہم شروع کی گئی ہے۔

پشاور کے کینسر ہسپتال ارنم کی کنسلٹنک آنکالوجسٹ ڈاکٹر نسیم بیگم نے جرنل آف کالج آف سرجنز اینڈ فزیشنز میں ایک اداریے میں لکھا ہے کہ پاکستان میں چھاتی کا کینسر وبائی شکل اختیار کر رہا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ قومی کینسر کنٹرول پروگرام (این سی سی پی) ابھی تک تیار نہیں کیا جا سکا، جس میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔ انہوں نے اس کی وجہ سیاسی عزم کی کمی، بیوروکریسی کا گنجلک نظام، ماہرین کی عدم دلچسپی کو قرار دیا ہے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی وجوہات کیا ہیں؟

اس سلسلے میں طبی ماہرین میں اختلاف ہے۔ ہم نے اسلام آباد پولی کلینک کے آنکالوجسٹ ڈاکٹر محمد کاشف خان سے بات کی تو انہوں نے بھی کہا کہ پاکستان اور ہمسایہ ملکوں میں چھاتی کے سرطان کی شرح میں فرق ہے لیکن جب تک ان ملکوں پر کوئی مشترکہ تحقیق نہیں ہو گی، اس وقت تک وجوہات کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔

ہم نے ان سے پوچھا کہ بعض رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قریبی رشتے داروں میں شادی (کزن میرج) اس کی بڑی وجہ قرار دی گئی ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ ہو سکتی ہے، لیکن اس سوال کا مکمل جواب نہیں ہے۔

انہوں نے کہ جینیات صرف 30 فیصد وجہ ہے، باقی وجوہات دوسری ہیں، اور ان کے تعین کے لیے شواہد پر مبنی تحقیق ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو جین ایسے ہیں جو کہ چھاتی کے کینسر کی تشخیص میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ٹیسٹ اتنے مہنگے ہیں کہ عام مریض کی پہنچ سے باہر ہیں، اس لیے ڈاکٹروں کو بھی انہیں لکھتے وقت احتیاط کرنا پڑتی ہے۔

ڈاکٹر کاشف نے مزید کہا کہ ہمارے ملک میں لوگ تیزی سے دیہات چھوڑ کر شہر کا رخ کر رہے ہیں، جس سے انہیں زیادہ آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس کے علاوہ کینسر میں اضافے کی ایک اور وجہ غیر صحت بخش غذا کا استعمال بھی ہے، جو خوراک جتنی زیادہ پراسیسڈ ہو گی، وہ اتنی ہی زیادہ نقصان دہ ہو گی اور یہ بھی کینسر کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ ہے۔

انہوں نے ایک اور وجہ یہ بتائی کہ حالیہ برسوں میں شادی شدہ خواتین میں دیر سے بچہ پیدا کرنے کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے اور ملازمت پیشہ خواتین اب عموماً 30 برس کی عمر کے بعد پہلا بچہ پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کو دودھ پلانے کا رواج بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے، اور دونوں رجحان چھاتی کے سرطان کا سبب بن سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت