چترال میں منفرد ثقافت اور عقائد رکھنے والے کالاش قبیلے کے بارے میں سب کو معلوم ہے لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں ڈیڑھ سو سال قبل تک کالاش جیسے غیرمسلم قبائل نہ صرف چترال، بلکہ افغانستان کے موجودہ نورستان صوبے میں بھی آباد تھے جسے اس زمانے میں کافرستان اور اس کے باسیوں کو غیرمسلم شناخت کی وجہ سے ’کافر‘ کہا جاتا تھا۔
پھر کیا ہوا کہ چند ہی سالوں میں نہ صرف غیرمسلم قبائل باقی نہ رہے بلکہ کافرستان کا نام تک تبدیل کر کے نورستان رکھا گیا؟
ہندوکش کے پہاڑوں میں گھرا نورستان موجودہ افغانستان کا مشرقی صوبہ ہے۔ اس کے تین اطراف میں افغانستان کے صوبے بدخشان، پنجشیر اور کنڑ جبکہ مغرب میں پاکستان کا ضلع لوئر چترال موجود ہے۔ اس علاقے کو ’کافرستان‘ کا نام اردگرد کی مسلم آبادی نے دیا تھا تاہم یہ قبائل ایک دوسرے کو مقامی ناموں سے پکارتے تھے اور مجموعی طور پر ان کا کوئی ایک نام نہیں تھا۔ یہ خطہ قدیم زمانے سے خودمختار قبیلوں کے مسکن کے طور پر موجود رہا، البتہ باشگل نامی اس کی ایک بڑی وادی ریاستِ چترال کی بالادستی قبول کرتی تھی اور اسے ہر سال خراج بھی ادا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ کالاش وادیاں چترال کا باقاعدہ حصہ تھیں۔
کافرستان کے لوگ کون ہیں؟
کافرستان کا علاقہ کئی ایک پہاڑی وادیوں پر مشتمل تھا جہاں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار سے ایک لاکھ کے قریب کافرستانی آباد تھے۔ باہر کی دنیا سے اس کا پہلا تفصیلی دورہ 1888 میں انگریز فوجی افسر جارج اسکاٹ رابرٹسن نے کیا اور ’دی کافرز آف دی ہندوکش‘ نام سے ایک تحقیقی کتاب لکھی۔ اس سے قبل یہاں کے قبائل کے بارے میں بیرونی دنیا کو علم نہ ہونے کے برابر تھا۔ رابرٹسن نے کافرستان میں کم از کم آٹھ مختلف قبائل اور کئی دوسری ذیلی شاخوں کا ذکر کیا۔ ان میں کتہ، کام، مڈوگل، پریسون اور وائی زیادہ بااثر قبیلے تھے۔ موجودہ کالاش کو یہ تمام قبائل نچلی ذات کا سمجھتے تھے اور انہیں غلام قبیلہ تصور کیا جاتا تھا۔
کافرستان کے قبائل کے مذاہب میں قدیم ہندومت، کہانت اور مظاہر پرستی کے عناصر شامل تھے جس میں مختلف دیوتاؤں اور فطری مظاہر پر ایمان رکھا جاتا تھا۔ یہ لوگ موسیقی، رقص، گیتوں اور قربانیوں کے ذریعے اپنے دیوتاؤں کو خوش رکھتے تھے، ان کے بُت تراشتے اور ان کی یاد میں معبد تعمیر کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں کے قبائل آپس میں لڑتے اور کبھی کبھار چترال سمیت دیگر مسلم علاقوں میں چھاپہ مار کارروائیاں کرتے اور مسافروں اور مقامی رہائشیوں سے سامان لوٹ کر فرار ہو جاتے تھے۔ موجودہ دور میں لواری سے ہوکر چترال شہر تک جانے والا راستہ اُس زمانے میں ان قبائل کے حملوں کی وجہ سے غیرمحفوظ خیال کیا جاتا تھا۔
یہ قبائلی کسی مسلمان کو قتل کرنے کو اعزاز سمجھتے تھے۔ ایسا کرنے والے شخص کو علاقے میں ہیرو مانا جاتا تھا۔ کوئی اگر مسلمان کو قتل کرنے کے ارادے سے وادی سے نکلتا تو اسے خصوصی رسومات کے بعد رخصت کیا جاتا۔ وہ شخص اپنے دشمن کو قتل کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو لاش کا سر یا کان کاٹ کر اپنے ساتھ نشانی کے طور پر گاؤں لے آتا جہاں دوسرے قبائلی اس کے استقبال کے لیے جمع ہوجاتے۔
موجودہ کالاش وادیوں کی طرح کافرستان میں بھی شراب کا رواج عام تھا۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ ’ہر کافر اپنے گلے میں شراب کی ایک چرمی بوتل لٹکاتا ہے، وہ پانی کی جگہ بھی شراب پیتے ہیں۔‘
گریٹ گیم، انگریز اور کافرستان کا زوال
19ویں صدی میں انڈیا میں موجود انگریزوں اور روس کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی جسے ’گریٹ گیم‘ کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کو ڈر تھا کہ کہیں روس وسطی ایشیا پر قبضے کے بعد چترال، گلگت، ہنزہ، بدخشان اور واخان جیسی آزاد مقامی ریاستوں پر بھی قبضہ نہ کرے۔ اس لیے فیصلہ ہوا کہ انہیں یا تو اپنے زیرِ اثر لایا جائے یا پھر افغانستان کے قبضے میں دیا جائے جہاں کے حکمران امیر عبدالرحمان اس وقت انگریزوں کا اتحادی بن گئے تھے۔
نتیجتاً افغانستان کو آزادی اور معاونت دی گئی کہ وہ آس پاس موجود آزاد قبائل اور چھوٹی ریاستوں کو قبضے میں لے، چنانچہ امیر عبدالرحمان نےانگریزوں کی ایما پر بدخشان، واخان، افغان ترکستان، ہزارہ جات، اسمار اور پھرآخر میں کافرستان پر قبضہ کیا اور موجودہ افغانستان کی بنیاد رکھی۔
1893 میں انڈیا اور افغانستان کے درمیان ڈیورانڈ لائن کھینچی گئی تو بہت سارے نئے علاقے افغانستان کے حصے میں آئےتاہم معاہدے کے تیسرے نکتے میں واضح طور پر لکھا گیا کہ افغانستان باشگل کی وادی پر قبضہ نہیں کرے گا جو چترال کے زیرِ اثر تھی۔ اس کے باوجود امیرعبدالرحمان کے اصرار پر انگریز حکام نے اس ڈر سے کہ کہیں وہ پورے معاہدے کو ہی منسوخ نہ کر دیں، باشگل اور کافرستان کو افغانستان کا حصہ قرار دے دیا۔ انگریزوں کو راضی کرنے کے بعد امیر نے فوراً ان علاقوں پر عمل داری قائم کرنے کی تیاری شروع کی۔
انہوں نے 1895 کی گرمیوں میں کافرستان پر تین اطراف یعنی بدخشان، لغمان اور اسمار سے چڑھائی کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ سب سے پہلی فوج اسمار کی طرف سے بھیجی گئی جس کی کمان غلام حیدر چرخی نامی سپہ سالار کے ہاتھ میں تھی۔ اس حملے کی تفصیلات مرزا شیر احمد جلال آبادی نامی افغان شاعر کی ایک طویل نظم ’فتح نامہ کافرستان‘ میں ہمیں ملتی ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ غلام حیدر کی چڑھائی کی اطلاع ملی تو کافرستانیوں کے نمائندوں نے اسمار میں آ کر ان سے ملاقات کی۔ شاعر کے بقول غلام حیدر نے انہیں ’غیرمہذب کتا‘ کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ اگر وہ مسلمان نہیں بنتے تو انہیں قتل کیا جائے گا۔ کافر سردار آپس میں مشورہ کرنے واپس چلے گئے لیکن مقررہ وقت پر واپس نہیں آئے تو چرخی نے پیش قدمی شروع کی۔ بریکوٹ کے علاقے سے آگے کافرستانیوں کے دو نمائندے آئے اور کہا کہ اگر ہمیں مذہب چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جاتا ہے تو ہم تختِ کابل کی اطاعت کرنے اور خراج دینے کے لیے تیار ہیں۔
سپہ سالار نے اپنے دو آدمی ان سرداروں کے ساتھ حالات کا جائزہ لینے کے لیے بھیجے۔ انہوں نے واپسی پر بتایا کہ وہاں کی وادیاں بہت تنگ و مشکل گزار ہیں اور اس وقت وہاں حملہ کرنا مناسب نہیں۔ اس پر چرخی نے فیصلہ کہ فی الحال ہم خراج لینے پر اکتفا کرتے ہیں یہاں تک کہ برف پڑ کر وادیوں کو کافرستانیوں کے فرار ہونے کے لیے بند نہیں کرتی۔ امیر عبدالرحمان نے اپنی خودنوشت سوانح حیات میں ایک اور وجہ بھی بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں کافرستان پر حملے کی خبر عیسائی مشنریوں کو نہ پہنچے جو پہلے ہی افغانوں کے ہاتھوں کافرستانیوں باشندوں کے استحصال پر آواز اٹھاتے تھے اور انگریز سرکار سے مداخلت کا مطالبہ کررہے تھے۔ یوں افغان فوج تین مہینے برف باری کے انتظار میں رہی۔
دوسری طرف کافرستانی باشندے اس اچانک فوج کشی سے پریشان تھے۔ وہ بڑی تعداد میں خراج لے کر غلام حیدر چرخی کے سامنے حاضر ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ انہیں افغان فوج کے غیظ و غضب سے بچا لے گا لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی۔
نومبر 1895 کو چرخی نے کافرستان پر باقاعدہ حملہ کردیا۔ چرخی کے آنے کی خبر ملنے پر کافرستانیوں باشندوں نے اپنے گھروں کو آگ لگا دی اور اوپر پہاڑوں کی طرف بھاگ گئے، لیکن جو لوگ ہاتھ آئے ان کو تین دنوں تک چن چن کر قتل کیا گیا۔ اس دوران بازگل، نصرتگل، ہم جز، وُرو مورو، سورت، کموبا اور میردیش پر افغان فوج نے قبضہ کیا۔ چوتھے دن ایک اور اہم علاقے کامدیش پر بھی قبضہ ہوا اور مردوخواتین کو قتل کیا گیا۔
انہوں نے چترال کے مہتر اور وہاں تعینات انگریز حکام کو متعدد نمائندے بھیج کر افغانوں کو حملے سے رُکنے پر راضی کرنے کی درخواست کی مگر مہتر کچھ نہیں کرسکتا تھا اور انگریز اپنے وسیع سیاسی مفاد میں اس معاملے میں افغانوں کو مداخلت کر کے ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگست 1895 میں لوٹ دیہہ کے کافرستانیوں کا ایک وفد چترال میں موجود تھا جہاں انہیں خبر ملی کہ ان کی سب سے اہم وادی گواردیش پر افغانوں نے قبضہ کردیا ہے، خبر سُنتے ہی وہ رونے لگے۔
بھاگے ہوئے چھ ہزار کافرستانیوں نے ’منڈاگل‘ کی انتہائی دشوار گزار وادی میں جمع ہو کر پناہ لی اور شاعر کے بقول، ’خنزیر کی طرح مضبوطی سے کھڑے رہے۔ چرخی نے توپوں سے ان پر آگ برسائی اور دو سمتوں سے فوجی دستے بھیجے جس سے وہ جلد ہی شکست کھاگئے۔ اس کے بعد ان کی بڑی تعداد کو قتل کیا گیا۔ کافرستانیوں کےمذہبی رہنما کو جنہیں وہ ’اوتا‘ کہتے تھے، قبائلیوں کے سامنے قتل کیا گیا، یوں ڈر کے مارے مزید کافرستانیوں نے اسلام قبول کرنے کی پیشکش کی۔
غلام حیدر چرخی نے حکم دیا کہ کافرستانی اپنے جوانوں کو ان کے سامنے بطورِ یرغمالی پیش کریں جنہیں وہ کابل بھیجنا چاہ رہا تھا۔ نظم میں بتایا گیا ہے کہ کچھ دنوں بعد کام اور کتہ قبیلے اپنے بچوں اور خواتین سمیت آکر اسلام قبول کیا۔ منڈاگل وادی کے باسی بھی حاضر ہوئے اور چرخی نے انہیں مجبور کیا کہ وہ ان کے سامنے اپنے چار بڑے دیوتاؤں یعنی مانی، گیش، ماری اور اُمرا کے بت ہتھوڑوں سے توڑ ڈالے۔
کافرستان کے قبائل جو اپنی بہادری اور جنگجوانہ صفات کی وجہ سے مشہور تھے، اب افغانوں سے جان بچانے کی کوشش کررہے تھے مگر ان کے پاس بھاگنے کو کوئی جگہ نہیں تھی۔ شروع میں تین ہزار قبائلی مردوزن بچوں سمیت برفیلی درے عبور کرکے چترال پہنچے جہاں کے مہتر کو وہ اس سے قبل باج دیتے تھے اور اپنے مسائل اس کے سامنے رکھتے تھے تاہم اس بار وہاں تعینات انگریز حکام نے ان کی آمد کی حوصلہ شکنی کرکے انہیں واپس بھیج دیا۔
چرخی نے سینکڑوں افغان مولوی اور فوجی مفتوحہ وادیوں میں بھیج دیے جنہوں نے وہاں گھوم پھر کر تبلیغ کی، ان کی قدیم عبادتگاہوں کو نذرِ آتش کیا اور ان کی جگہ مسجدیں بنائیں۔ دوسرے اطراف سے حملہ آور فوج کو ابتدائی طور پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑی تاہم انہیں بھی بعد میں کامیاب ملی۔ شاعر کے مطابق، ’وہاں کے اکثر کافرستانی دوزخ کی آگ کی نذر ہو گئے اور باقی نے اسلام قبول کرکے جان بچائی۔‘ امیر عبدالرحمان کے بقول صرف 40 دنوں میں کافرستان کا پورا علاقہ ان کے قبضے میں آ گیا۔
کافرستانیوں کا نقصان
کہا جاتا ہے کہ اس حملے میں قریباً 10 ہزار کافرستانیوں کا قتل عام ہوا اور 16 ہزار کو جبراً دوسرے علاقوں میں بسایا گیا۔ غلام حیدر نے 1600 قیدی اور جنگ کے دوران لوٹے گئے سامان کا بڑا ذخیرہ 100 اونٹوں پر لاد کر کابل بھیجا جہاں اس فتح کا جشن منایا گیا۔ ان میں سونے کے بنے دس قیمتی بُت بھی شامل تھے۔
کافرستانیوں پر ہونے والے حملے اور ظلم و زیادتی کی خبریں جب برطانیہ پہنچیں تو وہاں کی پارلیمنٹ اور حقوق کی تنظیموں میں اس پرشدید بحث ہوئی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس پر ایک چھوٹی تعداد میں کافرستانیوں کو چترال کی کالاش وادیوں میں بسنے کی اجازت تو دی گئی تاہم امیر عبدالرحمان کو علاقے پر قبضے اور لوگوں کا مذہب جبراً تبدیل کروانے سے نہیں روکا گیا۔
یہاں کے لوگ اپنے عقائد اور خودمختاری سے دستبردار کیے جانے اور افغانوں کے ظلم و ستم سے خوش نہیں تھے۔ ایک بار کابل بھیجے گئے کافرستانیوں کی تلاشی لی گئی تو ان سے ان کے دیوتاؤں کے 90 چھوٹے چھوٹے بُت ملے جن کو وہ بظاہر مسلمان بننے کے باوجود چھپ کر پوجتے تھے۔ کافرستانیوں کو مسلمان بنانے کے لیے متعین مولویوں کا رویہ بھی ناقابلِ برداشت تھا۔ انہوں نے بعض جگہ کافرستانی خواتین سے جنسی زیادتی سے بھی دریغ نہیں کیا۔
مثلاً تین مارچ 1897 کی ایک برٹش رپورٹ کے مطابق کافرستانیوں نے چار افغان مولویوں کو اپنی عورتوں سے زیادتی کرنے پر قتل کردیا۔ دوسری طرف پہلے سے کابل بھیجے گئے کئی یرغمالی مرگئے تھے اور افغان حملہ آور اب مزید یرغمالیوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس سب سے تنگ آ کر مئی 1897 میں بالائی باشگل کے کافرستانیوں نے بغاوت کی اور کئی مولویوں اور افغان فوجیوں کو قتل کر دیا اور دوبارہ سے اپنے پرانے مذہب پر آ گئے۔ تاہم جلد ہی اس بغاوت کو کچلنے کے لیے کامدیش سے افغان دستے بھیجے گئے جنہوں نے چار سو افراد کو قتل کیا اور بغاوت ناکام بنا دی۔
امیر عبدالرحمان نے تین ہزار افغان کافرستان میں بسنے کے لیے بھیجے تاکہ مقامی آبادی پر گرفت مضبوط کی جا سکے۔ یوں صدیوں سے اپنی خودمختاری کا کامیابی سے دفاع کرنےوالے اس علاقے نے نہ صرف اپنی آزادی کھو دی بلکہ اسے اپنی منفرد شناخت اور روایات سے بھی جبراًمحروم کیا گیا۔
یہ واقعہ کافرستان کے باسیوں کی یادداشت میں ایک تلخ تجربے کے طور پر زندہ رہا اور ان کی شاعری میں بھی جابجا اس کا ذکر ملتا ہے۔ ایک گیت میں مقامی شاعر افغان حملے کی نذر ہونے والے سکیلک نامی اپنے کسی عزیز کو یاد کرتا ہے:
افسوس، یہ جانکاہ خبر ہمیں ملی ہے
کتہ قبیلے کے 13 خانوادوں کو کابل لے جایا گیا ہے
افسوس اے سکیلک کہ تمہاری انمول ہڈیاں بکھیر دی گئیں
کافرستان کے سقوط کے بعد چترال کا کالاش قبیلہ اور برطانیہ کا ایک مشہور سمندری جہاز، جس کا نام ’کافرستان‘ رکھا گیا تھا، اس بھولی بسری تہذیب کی یاد کے طور پر باقی رہے۔ تاہم اس کارگو جہاز کا انجام بھی اس خطے کی طرح المناک ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم شروع ہونے کے محض 17 دن بعد یہ جہاز چینی کا ذخیرہ لے کر کیوبا سے انگلینڈ آ رہا تھا کہ ایک جرمن یو-بوٹ آبدوز نے اسے اپنے تارپیڈو کا ہدف بنا ڈالا۔
یہ دیوہیکل جہاز دیکھتے ہی دیکھتے بحر اوقیانوس کی اتھاہ اور تاریک گہرائیوں میں ہمیشہ کے لیے ایسے ڈوب گیا جس طرح کافرستان کی تہذیب وقت کی پہنائیوں میں ڈوب گئی۔