بہار کے انتخابات نے انڈیا کی جمہوری سمت کا تعین کر دیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی فتح نے مودی کے مرکزی کنٹرول والے منصوبے کو مزید تقویت دی ہے۔
یہ یاد دہانی کہ جمہوریت، چاہے کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو، اب بھی تجدید کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ووٹروں کے سامنے انتخاب محض جماعتوں یا شخصیات کا نہیں بلکہ دو نظریات کا ہے: ایک ایسا انڈیا جو تنوع کو قبول کرتا ہے اور دوسرا جو یکسانیت کو مسلط کرتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
نریندر مودی اور بی جے پی کے 2014 میں عروج کے بعد سے انڈیا نے آزادی کے بعد کی اپنی سب سے گہری سیاسی تبدیلیوں میں سے ایک کا تجربہ کیا ہے۔
جو تحریک سیاست سے بدعنوانی ختم کرنے اور قومی فخر کو بحال کرنے کے عوامی وعدے کے طور پر شروع ہوئی تھی، وہ اب ایک ایسے نظام میں تبدیل ہو چکی جہاں طاقت ایک شخص، ایک جماعت اور ایک نظریے کے ہاتھوں میں مرتکز ہو گئی ہے۔
وہ انڈیا جو کبھی اپنی تکثیریت، جوشیلی جمہوریت اور ادارہ جاتی خودمختاری پر فخر کرتا تھا، اب انہی اصولوں سے نبردآزما ہے جو اس کی شناخت تھے۔
یہ کشمکش سب سے زیادہ بہار کے انتخابات میں نظر آئی جو محض ایک ریاستی مقابلہ نہیں تھا بلکہ اس بات کی عکاسی تھا کہ مودی کا طرز حکمرانی ملک کی جمہوری ساخت کو کس طرح بدل چکا ہے۔
مودی کے دور میں انڈین جمہوریت کی یہ تبدیلی کسی فوجی قبضے یا آئینی ترمیم کے ذریعے نہیں آئی بلکہ کہیں زیادہ خاموش اور خطرناک طریقے سے آئی۔ اداروں کو اندر سے کھوکھلا کر کے۔
عدلیہ، جو کبھی انتظامیہ کی زیادتیوں کے خلاف مضبوط دیوار تھی، اب حکومتی حساس معاملات میں محتاط بلکہ بعض اوقات فرماں بردار نظر آتی ہے۔
تحقیقاتی ادارے سیاسی نظم و ضبط کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ حزب اختلاف اور ناقدین کے خلاف کارروائی کرتے ہیں مگر حکومت کے حامیوں کے خلاف خاموش رہتے ہیں۔
پارلیمنٹ، جو انڈین جمہوریت کا منہ بولتا ثبوت تھی، اب محض گونج بن گئی ہے۔ بحث و مباحثے کی جگہ غلبے نے لے لی، اہم بل چند منٹوں میں بغیر کسی سنجیدہ گفتگو یا حزب اختلاف کی رائے کے منظور کر لیے جاتے ہیں۔
پیغام واضح ہے کہ جمہوریت اب صرف ظاہری شکل میں باقی ہے، حقیقت میں نہیں۔
میڈیا، جو کبھی انڈیا کا چوتھا ستون کہلاتا تھا، شاید سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جو پریس کبھی آزاد اور نڈر تھا، وہ اب بتدریج ایک منظم بیانیے کے آلے میں بدل چکا ہے۔
بڑے نیوز چینل اور اخبارات اکثر حکومتی موقف دہراتے ہیں اور صحافت تماشہ اور پروپیگنڈے تک محدود ہو گئی ہے۔
اختلاف رائے رکھنے والے صحافی قانونی مقدمات، آن لائن مہمات یا اشتہارات کے ذریعے معاشی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ خوف کا یہ ماحول محسوس کیا جا سکتا ہے۔
آج کے انڈیا میں اقتدار پر سوال اٹھانا غیر معمولی جرات کا کام ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ جمہوری آزادی کتنی سکڑ چکی ہے۔
جو چند لوگ اب بھی سچ بولنے کی ہمت کرتے ہی، انہیں ’غدار وطن‘ قرار دیا جاتا ہے جو دراصل اختلاف رائے کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی علامت ہے۔
جمہوری اقدار کے زوال کے ساتھ ساتھ معاشرتی تقسیم کو بھی شعوری طور پر مزید بڑھایا گیا ہے۔
مودی کے دور میں سیاست کی زبان شمولیت سے ہٹ کر شناخت کی تقسیم پر مبنی ہو چکی ہے۔
بی جے پی کی کامیابی بڑی حد تک ایک ہندو اکثریتی ووٹ بینک پر مبنی ہے جو ثقافتی فخر اور تاریخی شکایات کے بیانیے سے متحرک ہوتا ہے۔ اس کے سنگین سماجی نتائج سامنے آئے ہیں۔
مذہبی اقلیتیں خاص طور پر مسلمان سیاسی، معاشی اور نفسیاتی طور پر حاشیے پر دھکیلی جا رہی ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون، ’لو جہاد‘ اور ’گاؤ رکھشا‘ جیسے نعروں نے معاشروں میں بداعتمادی اور نفرت کو عام کر دیا ہے۔
انڈیا کا تکثیری، سیکیولر جمہوری نظریہ اب ایک ایسے قوم پرستی میں تبدیل ہو رہا ہے جو مذہبی شناخت کو حب الوطنی سے جوڑ دیتا ہے۔
یہ تقسیم محض حادثہ نہیں بلکہ حکمت عملی ہے۔ یہ مودی کی انتخابی سیاست کا مرکز ہے ایک ایسی سیاست جو اندرونی دشمنوں کی تخلیق اور رہنما کو اکثریت کے محافظ کے طور پر پیش کرنے پر انحصار کرتی ہے۔
بی جے پی کی مہمات اب کارکردگی یا پالیسیوں پر نہیں بلکہ شناختی جنگوں پر مرکوز ہیں۔
ہر الیکشن اس سوال میں بدل جاتا ہے کہ ’کون سچا انڈین ہے، اور کون نہیں؟‘
اس جذباتی کھیل سے ووٹر کی وفاداری برقرار رہتی ہے چاہے معیشت میں کتنی ہی بدحالی کیوں نہ ہو۔
یہ ایسا سیاسی کنٹرول ہے جو دلیل کی جگہ خوف اور ہیجان کو لے آتا ہے۔
معاشی طور پر مودی کا دور تضادات سے بھرا رہا ہے۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا وعدہ اب ایک ایسے ماڈل میں بدل گیا ہے جو چند لوگوں کو فائدہ دیتا ہے جبکہ اکثریت پیچھے رہ جاتی ہے۔
کاغذوں میں جی ڈی پی کی شرح ترقی دکھائی دیتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے، عدم مساوات بڑھ رہی ہے اور چھوٹے کاروبار جو انڈین معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے غیر منظم نفاذ سے تباہ ہوئے۔
بڑی کارپوریشنز، جو حکومت کے قریب سمجھی جاتی ہیں پھل پھول رہی ہیں جبکہ عام شہری مہنگائی، بیروزگاری اور جمود کا شکار ہیں۔
حکومتی فلاحی منصوبے اکثر سیاسی تشہیر کے اوزار ثابت ہوتے ہیں۔ وقتی ریلیف کو طویل المدتی اصلاحات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اختیارات کا ارتکاز مودی کے ہاتھوں میں انڈیا کے وفاقی توازن کو بھی متاثر کر چکا ہے۔
ریاستیں، جو کبھی جمہوری تجربات کی نیم خودمختار لیبارٹریاں تھیں، اب دہلی کے دباؤ میں ہیں۔ مالی وسائل، سرکاری تعیناتیاں اور انتظامی امور سب سیاسی دباؤ کے آلات بن چکے ہیں۔
غیر بی جے پی ریاستیں فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم اور مداخلت کی شکایت کرتی ہیں جبکہ اتحادی ریاستوں کو زیادہ سہولت ملتی ہے۔ ’تعاونی وفاقیت‘ اب ’جبری وفاقیت‘ میں بدل گئی ہے۔
یہ رجحان بہار جیسی ریاستوں میں نمایاں ہے جہاں مقامی سیاست اکثر مرکزی قیادت کے مفادات سے متاثر ہوتی ہے۔
بہار جو ہمیشہ انڈیا کی سیاسی تجربہ گاہ رہی ہے انڈین جمہوریت کے مستقبل کا امتحان فیل کر چکی ہے۔
اس کی سماجی انصاف کی تحریکوں، ذات پر مبنی سیاست اور عوامی سطح کی سیاست کی تاریخ، مودی کے شخصی اور مرکزی کنٹرول والے سیاسی ماڈل سے بالکل متضاد ہے۔
بی جے پی کے لیے بہار جیتنا محض ایک ریاستی حکومت حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک قومی بیانیہ مستحکم کرنا ہے جس میں علاقائی شناختیں اور مخالف آوازیں جذب یا خاموش کر دی جاتی ہیں۔
حزب اختلاف کے لیے چاہے وہ کتنی ہی منتشر کیوں نہ ہو، بہار ایک ایسا محاذ تھا جہاں ایک مختلف انڈیا زیادہ تکثیری، زیادہ وفاقی اور زیادہ مساوات پسند اب بھی سانس لے سکتا ہے۔
حقیقی سوال یہ نہیں کہ بی جے پی بہار کیسے جیت گئی، بلکہ یہ ہے کہ جمہوریت ایسی فتوحات کے بعد کس حالت میں باقی رہتی ہے۔
ایسی جمہوریت جہاں انتخابات تو ہوتے ہیں مگر آزاد اداروں، بحث و مباحثے اور نمائندگی کو کمزور کر دیتی ہے، وہ محض رسم رہ جاتی ہے۔
انڈیا کا جمہوری بحران انتخابات کی غیر موجودگی کا نہیں بلکہ ان کے بامعنی ہونے کے خاتمے کا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ایک ہی جماعت مقننہ، انتظامیہ، میڈیا اور جزوی طور پر عدلیہ پر قابض ہو جائے تو حکومت اور ریاست کے درمیان لکیر دھندلا جاتی ہے۔
ایسی صورت میں طاقت خود کو قائم رکھنے والی بن جاتی ہے اور تنقید غداری سمجھ لی جاتی ہے۔
اس تبدیلی کا سب سے خطرناک پہلو اس کی معمولیّت ہے۔ بہت سے انڈین، جو بدعنوانی اور نااہلی سے تنگ آ چکے تھے اب مضبوط لیڈر کو استحکام کی قیمت کے طور پر قبول کر چکے ہیں۔
’فیصلہ کُن رہنما‘ کا بیانیہ جو افسر شاہی کو نظرانداز کرے اور اختلافِ رائے کو خاموش کرے متوسط طبقے اور بیرونِ ملک انڈینوں میں خاص طور پر مقبول ہے۔
لیکن آزادی کے بدلے کارکردگی اور اختلاف کے بدلے اتحاد کا یہ سودا انتہائی خطرناک ہے۔
جمہوریت کی اصل طاقت حکمرانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اداروں کی خودمختاری اور عوامی مکالمے کی وسعت میں ہوتی ہے۔ ایک بار جب یہ ختم ہو جائیں تو دوبارہ حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔
مودی کا دور وقتی انحراف نہیں بلکہ ایک ایسا رجحان بن سکتا ہے جو ان کے بعد بھی قائم رہے گا۔
اداروں کی کمزوری، قانون کا سیاسی استعمال اور کمیونٹیز کے درمیان اعتماد کا خاتمہ یہ زخم آسانی سے نہیں بھرتے۔
یہ ملک کے سیاسی ڈھانچے کو بدل دیتے ہیں۔ آنے والی حکومتیں بھی انہی اوزاروں کو استعمال کرنے کی عادی ہو سکتی ہیں۔
یوں نقصان صرف حال کا نہیں بلکہ مستقبل کا ہے۔ انڈیا کے اس تصور کا جو خود اصلاح کی صلاحیت رکھتا تھا۔
10 سال بعد انڈیا بظاہر تو جمہوریت ہے مگر اس کی روح آمرانہ ہو چکی ہے۔ ووٹنگ، جھنڈا لہرانا اور سیاسی تماشے جاری ہیں مگر اختلاف کی گنجائش جو جمہوریت کی آکسیجن ہے تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
یہ ایک عجیب تضاد ہے کہ ایک ایسا لیڈر جو عوامی بااختیاری کے نعرے پر آیا تھا اس نے ایک ایسا نظام کھڑا کیا جو کنٹرول پر قائم ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کنٹرول ایک ارب انسانوں کی جمہوری خواہشات کے ساتھ چل سکتا ہے؟ اس کا جواب تو بہار کے انتخابات نے دے دیا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
