انڈیا: بہار الیکشن کے بعد

بہار میں جس اتحاد کی بھی جیت ہو مگر یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان نتائج کا انڈیا کی قومی، اندرونی اور ریاستی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔

خواتین ووٹرز چھ نومبر، 2025 کو بہار کے ضلع ویشالی کے حلقہ راگھوپور میں اسمبلی انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران ایک پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروں میں کھڑی ہیں (اے ایف پی)

انڈین ریاست بہار میں ایک ایسے وقت پر اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہیں جب ملک میں سب کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔

جب بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت میں ردوبدل کی توقع ماند پڑ گئی، جب حکمران جماعت کی مذہبی جنونیت کا خمار کم پڑ رہا ہے، جب نوجوان روزگار کے مواقع تلاش کرنے میں ناکام ہیں، جب تجارت کا پہیہ ساکت ہے، جب آپریشن سندور کی نام نہاد ’کامیابیوں‘ کو ابھی تک عام لوگ قبول نہیں کر رہے، جب ماضی قریب میں ’دہشت گرد‘ کہلانے والے طالبان کے ساتھ دوستی مشکوک بن گئی ہے اور جب امریکی صدر کے مسلسل لڑاکا طیارے گرانے کے بیانات اداروں کو پریشان کر رہے ہیں ایسے میں اس ریاست میں انتخابات ہو رہے ہیں جہاں انڈیا اتحاد کی پوزیشن قدرے مضبوط ہے اور جہاں غریب ترین ریاست کی بی جے پی کی اتحادی حکومت مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔

اس ریاست میں جہاں مسلم ووٹ کی اہمیت ہے، وہیں پسماندہ طبقوں اور دلتوں کی بڑی آبادی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ 

بہار میں 18 فیصد مسلمان ہیں، خاص طور سے سیمانچل میں جہاں مسلمانوں کی47 فیصد آبادی ہے اور اکثر اوقات مسلم امیدوار کامیاب ہوتے رہے ہیں۔

اتر پردیش میں اس سے زیادہ مسلم آبادی تھی جس کو یوگی آدیتیہ ناتھ نے بے اختیار کر رکھا ہے۔

بہار میں جس اتحاد کی بھی جیت ہو مگر یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان نتائج کا انڈیا کی قومی، اندرونی اور ریاستی سیاست پر گہرا اثر پڑے گا۔

یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت انتخابی عمل میں ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے۔ اس کی اعلیٰ قیادت نے تو پٹنہ میں کافی عرصے سے اپنا ڈیرا جما رکھا ہے۔

کانگریس کی قیادت والے اتحاد میں شامل سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی جماعت راشٹریہ جنتا دل کی پوزیشن اس بار مستحکم بتائی جاتی ہے۔

البتہ راہل گاندھی نے جو ہریانہ اور مہاراشٹر میں بی جے پی پر انتخابی کمیشن کی حمایت سے ووٹ چوری کا الزام لگایا اس کی بدولت آر جے ڈی کے وزیر اعلیٰ کے امیدوار اور لالو یادو کے بیٹے تیجسوی یادو کو انتخابی دھاندلی کا خدشہ ہے۔

واضح رہے بی جے پی کے ایک مرکزی وزیر کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر سنا گیا جس میں وہ اپنے کارکنوں کو ہدایت دے رہے تھے کہ مخالف جماعتوں کے ووٹروں کو پولنگ بوتھ پر آنے سے روکنا ہو گا۔

بی جے پی نے اسے فیک ویڈیو بتایا۔ بہار کے انتخابی نتائج انڈیا کے مستقبل کو سنوار سکتے ہیں یا بگاڑ سکتے ہیں۔

اگر بی جے پی کا اتحاد انتخابی جیت کا حق دار بنتا ہے تو اس سے بی جے پی کی ہندو راشٹر بنانے کی مہم کو خاصی تقویت ملے گی اور جو وزیر اعظم مودی کی قیادت کی مدت بھی بڑھا سکتی ہے جو انہیں اپنے وعدے کے مطابق 75 برس کی عمر مکمل ہونے پر چھوڑنی لازمی تھی۔

آر ایس ایس کے بعض حلقوں سے یہ خبریں بھی آئیں کہ وہ پارٹی میں مودی کے متبادل ایک سخت ہندو کی تلاش میں ہیں اور جن کا انتہا پسند رویہ ہندو راشٹر بنانے میں مدد گار ہوسکتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مودی کے آر ایس ایس کی قیادت کی تعریفیں سن کر یہ اخذ کیا گیا کہ وہ ابھی اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور آر ایس ایس کے دفتر پر اچانک حاضری دینے سے انہوں نے اقتدار پر برقرار رہنے کا عندیہ دیا۔

خود آر ایس ایس میں بھی 75 سال کی عمر کے قائد کے لیے اقتدار دوسروں کو منتقل کرنا روایت تھی۔ 

موجودہ سربراہ موہن بھگوت سے سربراہی چھوڑنے کی توقع تھی لیکن وہ بدستور عہدے پر براجمان ہیں اور یہ تبدیلی شاید بہار انتخابات کے بعد عمل میں لائی جائے گی۔

انڈیا کی خارجہ پالیسی شدید تنقید کی زد میں ہے۔ پڑوسی ملکوں سے ٹکراؤ، امریکہ سے دوری اور اسرائیل سے قربت کی وجہ سے مسلم ممالک کی خاموشی سے خارجہ پالیسی لقوے کا شکار بتائی جاتی ہے۔

روس سے مسلسل تیل خریدنے کے مسئلے نے مغربی ملکوں کو انڈیا پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔

پھر طالبان کو خوش رکھنے کے لیے جس طرح سے پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے اسے اچانک جائز قرار دینا خارجہ پالیسی کی ناقص کارکردگی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 

بقول دفاعی نامہ نگار اشیش رینہ ’جو کل تک دہشت گردی کی فہرست میں پہلے نمبر پر تھے وہ راتوں رات دوست کیسے بن گئے؟‘

انڈیا اتحاد کے انتخابات جیتنے سے مودی کی قیادت پر سوال اٹھائے جانے کا امکان ہے اور کانگریس کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بی جے پی ہٹاؤ تحریک شروع کرنے سے نئے انتخابات کی ڈیمانڈ کی جائے گی جو مذہبی جنونیت کی بجائے نوجوانوں کی روزگار کی سبیل پیدا کر سکتا ہے۔

شمالی مشرقی ریاستوں میں امن عامہ کی بدترین صورت حال پر توجہ دلائی جائے گی، پڑوسی ملکوں کے خلاف جنگی جنون سے گریز اور خارجہ پالیسی کو از سرنو ترتیب دیا جانا لازمی بنایا جائے گا جو ملک کے بیشتر سفارتی امور کے ماہرین کی خواہش بھی ہے۔

بہار میں بی جے پی کی شکست سے سب سے زیادہ سکون مسلم اقلیت کو ملے گا تاکہ انہیں اپنے گھروں سے بے دخل، روزگار سے محروم اور شہریت چھننے کے عمل کو  روکا جا سکے۔

کیا انڈیا سیکولر رہ کر پھر کانگریس کو بحال کرے گا یا ہندو راشٹر کی تعمیر سے ملک افراتفری کا شکار ہو گا؟ 

اس کا انحصار انتخابی نتائج پر ہے اور جس کا انتظار سیکولر ہندوؤں سے زیادہ دلتوں اور اقلیتوں کو ہے۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر