بہار کا ریاستی الیکشن مودی کے لیے اہم کیوں؟

13 کروڑ آبادی والی انڈیا کی غریب ترین ریاست کا سب بڑا مسئلہ ’پیسہ‘ ہے جو دوسرے تمام مسائل پر حاوی ہے۔

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی ریاست بہار میں 2 نومبر 2025 کو اسمبلی انتخابات سے پہلے پٹنہ میں اپنے روڈ شو کے دوران حامیوں کے بیچ موجود ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کی غریب ترین ریاست بہار کی ریاستی اسمبلی کے انتخاب کے پہلے مرحلے میں 18 اضلاع میں جمعرات کو ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ ریاست کی 13 کروڑ کی آبادی میں سے بہت سے لوگوں کے لیے، ایک مسئلہ باقی سب پر حاوی ہے اور وہ ہے پیسہ۔

یہی وہ بات ہے جس سے وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ اس نے ریاست پر مکمل کنٹرول کے لیے ووٹروں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے معاشی ترغیبات دی ہیں۔

حکمت عملی تیار کرنے والوں کا کہناہے کہ یہاں ملنے والی فتح اگلے سال کے انتخابات میں دیگر اہم ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات میں ’نئی جان‘ ڈال سکتی ہے۔

ہندو اکثریتی بہار، انڈیا کی تیسری سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے جس کی آبادی تقریباً میکسیکو کے برابر ہے۔ یہ ریاست ایک رجحان ساز انتخابی میدان ہے۔

یہ ملک کے شمال میں ہندی بولنے والوں کی واحد ریاست ہے جہاں مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی نے کبھی اکیلے حکومت نہیں کی۔

 خاتون خانہ راج کماری دیوی کے لیے اپنے تین بچوں کا پیٹ پالنا اس روزانہ اجرت پر منحصر ہے جو ان کے شوہر ضلع مظفرپور میں مزدوری کر کے کماتے ہیں۔

جن دنوں انہیں کام ملتا ہے وہ تقریباً 400 سے 500 روپے (تقریباً 5 ڈالر) گھر لے آتے ہیں۔

28 سالہ راجکماری دیوی نے اپنے سادہ ایک کمرے کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر کہا کہ ’کوئی استحکام نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے وقت بھی آیا جب انہیں (شوہرکو) کئی دن تک کام نہیں ملتا تو جو تھوڑے بہت پیسے ہوتے ہیں انہیں کھینچ کر کام چلانا پڑتا ہے۔ ہر جگہ بے روزگاری ہے۔‘

سرکاری پالیسی تھنک ٹینک نیتی آیوگ کے مطابق، بہار غربت کے اشاریوں میں انڈیا میں بدترین درجہ ہے، جہاں فی کس مجموعی آمدن 52379 روپے ہے، جو کہ وسطی افریقی جمہوریہ جیسے ایک ملک سے معمولی زیادہ ہے۔

پیسے کے وعدے

گذشتہ ایک دہائی کے دوران ریاست میں بہتری آئی ہے۔

گذشتہ سال جاری کیے گئے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، کثیر الجہتی غربت یعنی صحت، تعلیم اور معیارِ زندگی میں محرومی کے شکار شہریوں کا حصہ 2016 میں نصف سے ذرا زیادہ تھا جو 2021 میں گر کر تقریباً ایک تہائی رہ گیا ہے۔

ستمبر میں، مودی نے آٹھ ارب ڈالر کے سرمایہ کاری منصوبوں کا اعلان کیا، جن میں ریل اور سڑکوں کی بہتری، نئی زرعی سکیمیں اور ایک ہوائی اڈے کی تعمیر شامل ہے۔

وزیر اعظم نے کاروبار کرنے والی خواتین کی مدد کے لیے 84 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کے منصوبے کی بھی نقاب کشائی کی جس کے تحت 75 لاکھ خواتین کو 10000 روپے فی کس رقم منتقل کرنے کی پیشکش کی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بے روزگاری

بی جے پی کا بڑا حریف راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) اور کانگریس پارٹی کی قیادت والا اپوزیشن اتحاد ہے۔

آر جے ڈی کے رہنما تیجسوی یادو نے گذشتہ ہفتے ضلع دربھنگہ میں ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد کہا کہ ’نیا بہار بنانے کا وقت آگیا ہے۔‘ انہوں نے ہر خاندان کے لیے ایک سرکاری نوکری کا وعدہ کیا۔

بی جے پی کے سابق انتخابی حکمت عملی ساز پرشانت کشور نے ’جن سوراج‘ یعنی ’اچھی عوامی حکمرانی‘ کے نام سے پارٹی قائم کی ہے۔

حامیوں نے ہجوم میں ان کی ریلی کے دوران انہیں گیندے کے ہار پہنائے۔

ان کے حامی 25 سالہ طالب علم اور حامی مدثر نے کہا کہ ’آدمی گرنے کے بعد ہی دوڑتا یا چلتا ہے۔ اس بار وہ (پارٹی) بڑی کامیابی حاصل نہ بھی کرے تو ٹھیک ہے۔‘

ان کے ایک اور حامی پشپیندر کا کہنا تھا کہ انتخابات کا نتیجہ اس پر منحصر ہوگا کہ ووٹر کس پارٹی کو اپنے مستقبل کے لیے مددگار سمجھتے ہیں۔ وہ اس جانب اشارہ کر رہے تھے کہ ’بہاری‘ ہونا ’بے روزگار لوگوں‘ کا مترادف بنتا جا رہا ہے۔

30 سالہ وکاش کمار 10 سال پہلے روزگار کی تلاش میں بہار چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں گئے، مگر اب بھی مستقل آمدن کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر یہاں کمپنیاں قائم ہو جائیں تو یہاں کے لوگ بھوک سے نہیں مریں گے۔ وہ پیسے کمائیں گے۔ گھر پر رہیں گے۔ آرام سے زندگی گزاریں گے اور کھانا کھائیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا