’دارالحکومت میں بغیر اجازت دھرنے خلاف قانون ہیں‘

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کے خلاف رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران کہا ایسے دھرنوں کو ریگولیٹ کرنا ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

جمیعت علما اسلام (ف) نے منگل کو اسلام آبادانتظامیہ سے ایک درخواست کے ذریعےدھرنے کی اجازت مانگی ہے(اے ایف پی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے بدھ کو ریمارکس دیے کہ مقامی انتظامیہ کی اجازت کے بغیر وفاقی دارالحکومت میں جلسے، جلوس یا دھرنے خلاف قانون ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے آج جمیعت علما اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے خلاف رٹ پٹیشن کی سماعت کے دوران کہا ایسے دھرنوں اور دوسری سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنا ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

تاہم انہوں نے کہا ابھی جے یو آئی (ف) کے آزادی مارچ کے حوالے سے کچھ ہوا نہیں، انہوں نے ابھی اجازت لینا ہے۔

جمیعت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر کو آزادی مارچ کی کال دے رکھی ہے، جس کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ہٹانا ہے۔

آزادی مارچ ملک کے مختلف حصوں سے شروع ہو گی اور شرکا اسلام آباد پہنچیں گے۔

مولانا فضل الرحمان نے وفاقی حکومت کو وارننگ دی ہے کہ آزادی مارچ کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔

اسلام آباد کے ایک شہری حافظ احتشام نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن کے ذریعے جمیعت علما اسلام (ف) کو آزادی مارچ اور دھرنے سے روکنے کی استدعا کی۔

حافظ احتشام نے موقف اختیار کیا کہ ایسے دھرنے اور احتجاج اسلام آباد کے شہریوں کے روز مرہ معمولات میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی ایک فیصلے میں ایسی سرگرمیوں کو وفاقی دارالحکومت کے جمہوریت پارک تک محدود رکھنے کا حکم صادر کر چکی ہے۔

دوسری طرف، منگل کو جمیعت علما اسلام (ف) نے اسلام آباد کی انتظامیہ سے ایک درخواست کے ذریعے دھرنے کی اجازت مانگی ہے۔

جے یو آئی کے وکیل کامران مرتضی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’ہم نے ڈی چوک کے سامنے دھرنے کے لیے اجازت طلب کی ہوئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا ان کی درخواست پر ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جے یو آئی (ف) کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اجتماعات کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کا قانونی اور آئینی حق ہے اور اس لیے پارٹی کو27 اکتوبر کو ڈی چاک کے سامنے دھرنے کی اجازت دی جائے۔

کامران مرتضی نے بتایا کہ اجازت 27 سے بعد کے دنوں کے لیے مانگی گئی ہے۔ تاہم انہوں یہ نہیں بتایا کہ کتنے روز کے دھرنے کے لیے اجازت طلب کی گئی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ یا دھرنے کے خلاف رٹ پٹیشن کا انہیں سوشل میڈیا سے علم ہوا اور عدالت کی جانب سے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن کی سماعت کے شروع ہوتے ہی چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا جے یو آئی (ف) نے انتظامیہ سے دھرنے یا آزادی مارچ کی اجازت طلب کی ہے۔

جس پر درخواست گزار حافظ احتشام نے کہا کہ ایسی کسی اجازت کے لیے درخواست نہیں دی گئی ۔

اس جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر ابھی اس سلسلے میں کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمیعت علما اسلام (ف) کو اجازت طلب کر لینے دیں کیونکہ اجازت دینا یا نہ دینا مقامی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا تحریک انصاف کے دھرنے کے وقت بھی انہیں بتایا گیا تھا کہ اجازت اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ سے ہی لینا پڑے گی۔

مختصر سماعت کے بعد عدالت نے مزید کارروائی ایک ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان