2025 اور پاکستانی عدلیہ: جب سپریم کورٹ سپریم نہ رہی

2025 میں سپریم کورٹ آف پاکستان سپریم نہ رہی اور وفاقی آئینی عدالت وجود میں آ گئی۔ آئینی معاملات آئینی عدالت کے سپرد ہوئے جب کہ دیوانی و فوجداری مقدمات سپریم کورٹ کے حصے میں آئے۔

سال 2025 میں پاکستانی عدالتوں نے کئی اہم فیصلے تو کیے، لیکن اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں کی حیثیت و خدوخال بھی تبدیل ہو گئے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان سپریم نہ رہی اور وفاقی آئینی عدالت وجود میں آ گئی۔ آئینی معاملات آئینی عدالت کے سپرد ہوئے جب کہ دیوانی و فوجداری مقدمات سپریم کورٹ کے حصے میں آئے۔

27 ویں آئینی ترمیم کے تحت وفاقی آئینی عدالت قائم کی گئی۔ جسٹس امین الدین اس عدالت کے پہلے چیف جسٹس بن گئے۔ سپریم کورٹ میں زیر التوا 55000 مقدمات میں سے ایسے 25000 مقدمات آئینی عدالت کو منتقل ہو گئے جن میں کوئی نہ کوئی آئینی نکتہ شامل تھا۔

پارلیمان نے آئینی ترمیم کا دو سال میں دو بار کچھ ایسے استعمال کیا کہ اب سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججز میں شامل ہونا بھی چیف جسٹس پاکستان بننے کی ضمانت نہیں رہا۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس اگر سینیارٹی میں اوپر ہوئے تو یہ عہدہ بھی ان کے پاس ہی جائے گا۔

سپریم کورٹ کے وکیل شیخ احسن الدین کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ کے سارے اختیارات لے لیے گئے، اب سپریم کورٹ کی حیثیت ڈسٹرکٹ کورٹ سے زیادہ نہیں رہی۔‘ 

عدلیہ میں بہتری کے نام پر دو ترامیم تو کی گئیں لیکن پاکستان بھر میں زیر التوا بائیس میں سے 18 لاکھ عام شہریوں کے مقدمات آج بھی ضلعی کچہریوں میں ہیں۔

2025 میں سپریم کورٹ نے پانچ اہم فیصلے کیے۔

مخصوص نشستیں

27 جون 2025 کو سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پانچ کے مقابلے میں سات کی اکثریت سے مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی درخواستیں منظور کر لیں۔ عدالت نے مختصر فیصلے میں 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے عملاً حکمران جماعتوں بشمول اپوزیشن جماعت جے یو آئی کو اضافی نشستیں دینے کی منظوری دی۔

عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سات مئی کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق آرمی ایکٹ کی شقوں کو بحال کرتے ہوئے عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کو درست قرار دے دیا اور وزارت دفاع سمیت دیگر اپیلوں کو منظور کر لیا۔ 

عدالت نے 23 اکتوبر 2023 کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا اور تمام کیسز سول عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا تھا۔

 نور مقدم کیس

اسلام آباد کے مشہور نور مقدم قتل کیس میں، جس میں مجرم کو پھانسی کی سزا سنائی گئی، ان کی اپیل پر سپریم کورٹ نے 20 مئی کو فیصلہ سناتے ہوئے سزائے موت برقرار رکھی اور تحریری فیصلے میں کہا کہ ’سائلنٹ وِٹنس تھیوری کے مطابق بغیر عینی گواہ کے ویڈیو ثبوت قابلِ قبول ہیں۔‘ 

عدالت نے کہا کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج ایک رئیل ٹائم فوٹیج ہے جو کسی بھی انسانی شہادت سے زیادہ مستند ہے۔ تصدیق ہو جانے کے بعد اسے خاموش گواہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔‘

 ترقی کے اہل افسر کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پروموشن دی جا سکتی ہے

پرفارمنس پروموشن سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جولائی میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ترقی کے اہل افسر کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پروموشن دی جا سکتی ہے۔ ترقی کے لیے ہر سرکاری ملازم کو زیر غور لایا جانا بنیادی حق ہے۔‘ 

عدالت نے مزید کہا کہ ’ریٹائرڈ افسروں کو دیر سے انصاف دینا غیر منصفانہ ہے۔ تمام سرکاری ادارے ترقی کے معاملات میں شفاف اور فوری فیصلے کریں۔‘

 نو مئی مقدمات میں عمران خان کی آٹھ ضمانتوں کی درخواستیں منظور

سپریم کورٹ نے نو مئی کے مقدمات میں سازش اور شواہد پر دلائل کے بعد رواں برس 21 اگست کو بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی آٹھ مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں منظور کر لیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ’ہم درخواستیں منظور کر رہے ہیں۔ آرڈر ایسا لکھوائیں گے کہ کسی کا ٹرائل متاثر نہ ہو۔‘

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ اہم فیصلے

1۔ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے جعلی ڈگری کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کی بطور جج تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے نااہل قرار دے دیا۔

2۔ عدالت نے جیل میں قیدیوں کی سیاسی گفتگو پر پابندی کا قانون بحال کیا جسے سنگل بینچ نے کالعدم قرار دیا تھا۔

3۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے جیل ملاقاتوں کی مشروط اجازت دیتے ہوئے ملاقاتیوں کی جیل کے باہر میڈیا ٹاک پر بھی پابندی عائد کی گئی۔

4- جسٹس بابر ستار نے چیئرمین پی ٹی اے کو برطرف کیا، جنہیں دو روز بعد ہی ڈویژن بینچ نے عارضی طور پر بحال کر دیا۔

5- ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی درخواست پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے وزیرِ اعظم اور کابینہ کو توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کیے، جس کے بعد یہ کیس ان کی عدالت سے منتقل کر دیا گیا اور اب لارجر بینچ میں زیر سماعت ہے۔

6- نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق فکسیشن پالیسی بھی مرتب کی گئی، جس کے بعد تمام اپیلوں کو صرف اپنی باری آنے پر ہی مقرر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا کے خلاف اپیل اسی پالیسی کی وجہ سے مقرر نہ ہو سکی، جب کہ سزا معطلی کی درخواستوں پر متعدد سماعتوں میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔

20 دسمبر کو ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو مختلف دفعات کے تحت مجموعی طور پر سترہ، سترہ سال قید کی سزا سنائی۔

 عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی، اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 409 کے تحت دونوں کو 7، 7 سال قید علیحدہ سے بھی سنائی۔ اس کے علاوہ عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی پر ایک کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد جرمانہ بھی عائد کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان