سپریم کورٹ کے دو جج مستعفیٰ، جسٹس امین آئینی عدالت کے چیف جسٹس مقرر

وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے تصدیق کی ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفی دے دیا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ (بائیں) اور جسٹس منصور علی شاہ (دائیں) (سپریم کورٹ ویب سائٹ)

حکومت کی جانب سے 27ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں سپریم کورٹ اور ججز سے متعلق بڑی تبدیلیوں کے بعد سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ جمعرات کو مستعفیٰ ہو گئے جبکہ جسٹس امین الدین کو نئی وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا ہے۔

وزیر مملکت برائے قانون و انصاف عقیل ملک نے دونوں ججوں کے استفعوں کی تصدیق کی۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ آیا دونوں استعفے منظور کر لیے گئے یا نہیں۔

لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے رکن اور سابق اٹارنی مخدوم علی خان بھی مستعفی ہو گئے ہیں۔ 

ادھر حکومت پاکستان نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے جسٹس امین الدین خان کو وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس مقرر کر دیا، جس کے مطابق وہ حلف اٹھانے کے بعد نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔

رواں ہفتے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری نے آج 59 شقوں پر مشتمل 27 ویں آئینی ترمیمی بِل پر دستخط کر دیے، جس کے بعد یہ ترمیم باقاعدہ آئین پاکستان کا حصہ بن گئی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے میں، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، لکھا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے منظور ہونے سے قبل میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس مجوزہ ترمیم کے آئینی نظام پر اثرات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے لکھا ’میں نے اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ فرائض کو اپنے حلف کے مطابق نبھانے کی کوشش کی، لیکن آج وہی حلف مجھے اپنے عہدے سے باضابطہ طور پر استعفیٰ دینے پر مجبور کر رہا ہے۔‘

’جس آئین کو میں نے برقرار رکھنے اور اس کا دفاع کرنے کا حلف لیا تھا، وہ اب باقی نہیں رہا۔

’میں نے خود کو قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ شاید ایسا نہیں، مگر میں اس سے بڑا حملہ کسی اور پر نہیں دیکھ سکتا کیونکہ اب جو نئی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں، وہ صرف اس آئین کی قبر پر استوار کی جا رہی ہیں۔ جو باقی رہ گیا ہے، وہ محض ایک سایہ ہے۔‘

جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں 27ویں آئینی ترمیم کو ’پاکستان کے آئین پر ایک سنگین حملہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ترمیم نے سپریم کورٹ کو کمزور، عدلیہ کو انتظامیہ کے ماتحت اور جمہوری ڈھانچے کے بنیادی اصولوں کو متاثر کیا ہے۔

ان کے مطابق، ’یہ ترمیم اعلیٰ عدلیہ کی وحدت کو توڑ کر عدالتی خودمختاری اور دیانت داری کو مفلوج کر دیتی ہے اور ملک کو کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

’تاریخ گواہ ہے کہ ایسے آئینی بگاڑ دیرپا نہیں ہوتے — بالآخر درستگی کی طرف لوٹ آتے ہیں — مگر اپنے پیچھے ادارہ جاتی زخم ضرور چھوڑ جاتے ہیں۔‘

جسٹس شاہ نے لکھا کہ ان کے سامنے دو راستے تھے۔ یا تو وہ بطور سپریم کورٹ کے جج خدمات جاری رکھتے جس سے وہ اس ادارے کی بنیادوں کو کمزور کرتے جس کے تحفظ کا انہوں نے حلف اٹھایا ہے، یا پھر وہ اپنا استعفیٰ دے دیں۔

ان کا کہنا تھا، ’عہدے پر برقرار رہنا ایک ایسے آئینی غلطی پر خاموش رضامندی ظاہر کرنے کے مترادف ہوتا اور اس عدالت میں بیٹھنے کے برابر ہوتا جس کی آئینی آواز کو خاموش کر دیا گیا ہے۔‘

جسٹس شاہ نے اپنے خط کے اختتام پر لکھا، ’ایسی کمزور اور محدود عدالت میں رہ کر میں نہ تو آئین کا تحفظ کر سکتا ہوں، اور نہ ہی اس ترمیم کا عدالتی جائزہ لے سکتا ہوں جس نے خود آئین کی صورت بگاڑ دی ہے۔‘

27ویں ترمیم میں عدلیہ سے متعلق سب سے اہم تبدیلی موجودہ سپریم کورٹ کے علاوہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام ہے، جس کی سپریم کورٹ کے بعض ججز، نمایاں وکلا اور سول سوسائٹی نے مخالفت کی ہے۔

عدالت عظمٰی کے کئی ججوں نے چیف جسٹس کو سوموار کو خطوط لکھتے ہوئے فل کورٹ اور جوڈیشل کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

استعفی دینے والے جسٹس اطہر من اللہ نے رواں ہفتے اپنے خط میں چیف جسٹس سے جوڈیشل کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ’ہمارا حلف تقاضا کرتا ہے کہ ہم عدلیہ پر عوام کے اعتماد کا دفاع کریں۔‘

انہوں نے کہا ’سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی، عوام کے ساتھ نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابل معافی جرم تھا۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔‘

سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پنہور نے بھی چیف جسٹس یحیی آفریدی کو خط لکھ کر اپنی تشویش ظاہر کی اور کہا ’آئین موم کی طرح ڈھلنے والا نہیں۔‘

جسٹس پنہور کے مطابق ’خاموشی احتیاط نہیں بلکہ دستب رداری ہے، ایسا وقت آ گیا ہے جب خاموش رہنا آئینی فریضے سے انحراف ہو گا۔‘

انہوں نے کہا یہ ترمیم عدلیہ کی بنیادوں کو چھو رہی ہے اور اس سے عدالتی آزادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عدلیہ کی آزادی کوئی استحقاق نہیں بلکہ بنیادی شرط ہے، اگر عدلیہ آزاد نہیں تو قانون کی حکمرانی محض الفاظ رہ جائیں گے۔‘

خط میں مزید کہا گیا کہ ’ترمیم سے عدالتی توازن متاثر ہو سکتا ہے جبکہ بینچز کی تشکیل، ججز کی تقرری و برطرفی اور مالی و انتظامی خودمختاری پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔‘

’عدلیہ کے کسی ستون کو کمزور کیا گیا تو پورا ڈھانچہ ہل جائے گا۔ آزادی کل نہیں آج کے انکروچمینٹ سے ختم ہو سکتی ہے۔‘

جسٹس پنہور نے تجویز دی کہ فل کورٹ اجلاس بلایا جائے تاکہ ترمیم کی ہر شق کا جائزہ لیا جا سکے۔ ’فل کورٹ دیکھے کہ یہ ترمیم عدالتی آزادی کو مضبوط کرتی ہے یا کمزور، اگر کمزور کرتی ہے تو سچ کہنا ہو گا۔‘

اس ترمیم کو سابق چیف جسٹس جواد ایس۔ خواجہ نے منگل کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر دیا۔

ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کو آئین اور قانون کے مطابق کسی بھی ترمیم کی آئینی حیثیت یا قانونی جواز کا فیصلہ کرنے کا خصوصی اختیار برقرار رہنا چاہیے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایکٹ — بشمول 27ویں ترمیم — کی وہ تمام دفعات منسوخ یا معطل کی جائیں جو سپریم کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار کو کم یا ختم کرتی ہیں، یا کسی اور عدالت یا ادارے کو یہ اختیار منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

درخواست میں عدالتِ عظمیٰ سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ 27ویں ترمیم کی وہ دفعات جو ہائی کورٹ کے ججوں کی منتقلی سے متعلق ہیں، انہیں بھی کالعدم قرار دیا جائے، اور جب تک اس درخواست پر حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا، ان دفعات پر عمل درآمد فوری طور پر روک دیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان